یوپی اسمبلی انتخابات: لکھنؤ کی زیادہ تر سیٹوں پر مقابلہ میں پھنسی بی جے پی!
لکھنؤ میں 9 سیٹوں پر پولنگ کا عمل مکمل ہو چکا ہے، یہاں نئے ووٹروں کا جوش و خروش اور اقلیتی ووٹوں کا یکطرفہ لیکن خاموش رجحان نتائج میں الٹ پھیر پیدا کر سکتا ہے
لکھنؤ: یوپی انتخابات میں چوتھے مرحلہ کے دوران 59 سیٹوں پر پولنگ کا عمل گزشتہ روز مکمل ہو گیا۔ اس مرحلہ میں راجدھانی لکھنؤ ضلع میں بھی ووٹروں نے اپنے حق رائے دہی کا اظہار کیا۔ یہاں نئے ووٹروں کا جوش و خروش اور اقلیتی ووٹوں کا یکطرفہ لیکن خاموش رجحان نتائج میں الٹ پھیر پیدا کر سکتا ہے۔ لکھنؤ ضلع کی 9 سیٹوں پر جس طرح جدوجہد دیکھنے میں آئی اس سے بی جے پی کے یکطرفہ جیت کے دیرینہ دعوے چکناچور ہوتے نظر آئے۔ ایک یا دو سیٹوں کو چھوڑ کر بی جے پی کو یہاں تمام سیٹوں پر سخت چیلنج کا سامنا رہا۔ لہر پیدا کر کے مقابلہ کرنے والی بی جے پی کی حالت اس وقت بھی خراب نظر آئی جب لکھنؤ مغرب کے بال گنج میں پولنگ بوتھ پر بیٹھے کارکنان آپس میں یہ یاد کرنے کی کوشش کرتے نظر آئے کہ ان کا امیدوار کون ہے! ضلع کی ہر سیٹ پر پولنگ ختم ہونے تک بوتھوں کے باہر بی جے پی اور ایس پی کے علاوہ کانگریس اور بی ایس پی کے بستے بتا رہے تھے کہ لڑائی واقعی کانٹے کی ہے۔
حکمراں جماعت بی جے پی کے لیے ضلع کی 3 سیٹوں پر انتخابی معرکہ آرائی ’کیک واک‘ کی مانند سمجھی جا رہی تھی لیکن پولنگ سے چند گھنٹے قبل بدلی ہوئی سیاسی پیش رفت نے ان سیٹوں پر بھی مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ووٹنگ کے اختتام تک راجدھانی میں دو طرح کے مناظر دیکھے گئے۔ ابتدائی مرحلے میں شہری علاقوں بالخصوص گومتی نگر ایکسٹینشن علاقے میں ووٹ ڈالنے کے لیے ووٹروں میں جوش و خروش تھا، جبکہ پرانے لکھنؤ میں بھی اب تک غیر جانبدار رہنے والے ووٹروں کی رائے کو ووٹوں میں بدلتے ہوئے دیکھا گیا۔ نئے ووٹرز میں کافی جوش و خروش نظر آیا۔ تاہم کئی علاقوں میں خاص طور پر پرانے لکھنؤ میں ’ووٹر پرچی‘ نہ ہونے کی وجہ سے لوگ اپنے بوتھ تلاش کرتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔
صبح سے ہی راجدھانی کے پوش علاقہ گومتی نگر ایکسٹینشن میں جگہ جگہ ووٹروں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں چند دن پہلے تک کثیر المنزلہ عمارتوں میں رہنے والے ووٹرز مقامی مسائل کی وجہ سے ووٹ ڈالنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ ایسے زیادہ تر ووٹروں نے ووٹ نہ دینے یا نوٹا (بذکورہ بالا میں کوئی نہیں) کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پرانے لکھنؤ میں ووٹر پرچی نہ ملنے کی شکایتیں عام تھیں، وہیں گومتی نگر اور اندرا نگر جیسے شہری علاقوں میں کئی دن پہلے گھر گھر ووٹر پرچی پہنچائی گئی تھیں۔ چوک علاقہ کے آشیش اور رضیہ نے کئی افسران سے یہی شکایت کی۔ ان کا بوتھ ڈھونڈنے میں کافی دقت ہوئی۔ شکیل کو بھی بدانتظامی پر سوال اٹھاتے دیکھا گیا۔ شوکت کی شکایت تھی کہ اس کی وجہ سے انہیں ووٹ ڈالنے میں دشواری ہوئی۔
سروجنی نگر اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے امیدوار راج راجیشور سنگھ ووٹروں میں اپنے ہی طرز عمل سے ووٹروں کے بیچ گھرے ہوئے نظر آئے۔ کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہاں اپنے لوگوں سے نہ ملنے کا معاملہ پولنگ کے دن اس قدر زور پکڑے گا۔ ورنداون علاقے کے بوتھوں پر بی ایس پی کے بستوں پر کافی بھیڑ جمع تھی۔ جبکہ ابراہیم گنج پولنگ اسٹیشن کے باہر کانگریس کے بستے گلزار نظر آئے۔ سرخ ٹوپیاں پہنے ایس پی کارکن بھی سرگرم رہے۔
ابھی تک کینٹ اسمبلی سیٹ کو بی جے پی امیدوار برجیش پاٹھک کے لیے کیک واک سمجھا جا رہا تھا لیکن الیکشن سے عین قبل بی جے کی رکن پارلیمنٹ ریتا بہوگنا جوشی کے بیٹے مینک جوشی کی ایس پی سربراہ اکھلیش یادو سے ملاقات پارٹی کے لئے مشکلات کھڑی کر گئی۔ اس ملاقات کی تصویر بھی خوب وائرل ہوئی۔ کینٹ اسمبلی حلقہ میں برہمن اور پہاڑی ووٹروں کی ایک بڑی تعداد ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ رکن پارلیمنٹ ریتا جوشی کو ان میں مقبولیت حاصل ہے۔ اس واقعہ کا پیغام بھی رائے دہندگان میں واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔
گومتی نگر میں کیندریہ ودیالیہ پولنگ اسٹیشن کے قریب بھی اسی طرح کی بحث دیکھنے کو ملی۔ ووٹ ڈالنے سے قبل ووٹرز میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کا درد بھی نظر آیا۔ لکھنؤ سنٹرل اسمبلی حلقہ میں نویوگ کنیا ڈگری کالج کے قریب جمع نوجوان رائے دہندگان اس امید کے ساتھ نئی حکومت کو منتخب کرنے کے لیے پرجوش تھے کہ سرکاری بھرتیوں میں تاخیر اور امتحانات میں دھاندلی پر لگام لگے گی۔ نوجوان ووٹروں کی نئی سمجھ اور ترقی پر توجہ اس الیکشن میں نمایاں تھی۔
شاعر منور رانا کا نام غائب
منور رانا کینٹ اسمبلی حلقہ کے علاقے لال کنواں کے ووٹر ہیں۔ ووٹنگ سے ایک دن قبل انہوں نے علاقے کے ممبر سے پرچی مانگی تو نہیں ملی۔ پتہ چلا کہ ان کا نام ووٹر لسٹ سے غائب ہے۔ ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے رانا کا کہنا ہے کہ حکومت خود ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں دے رہی، تاہم بعد میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ بدانتظامی کی وجہ سے وہ ووٹ نہیں ڈال سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔