یوپی الیکشن گراؤنڈ رپورٹ: فرقہ واریت کی سیاست سے ناراض نوجوان اب چاہتے ہیں صرف کام کی بات

اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں جن اضلاع میں 10 فروری کو ووٹنگ ہونی ہے، مظفر نگر ضلع ان میں سے ایک ہے، دوسرے اضلاع کی طرح یہاں کے نوجوانوں کے لیے روزگار ایک اہم ایشو ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں جن اضلاع میں 10 فروری کو ووٹنگ ہونی ہے، مظفر نگر ضلع ان میں سے ایک ہے۔ دوسرے اضلاع کی طرح یہاں کے نوجوانوں کے لیے بھی روزگار ایک اہم ایشو ہے۔ اس علاقے میں کھیل کے تئیں بھی نوجوانوں کا لگاؤ ہے، لیکن سہولیات کی کمی کے سبب صلاحیت ہوتے ہوئے بھی کھلاڑی کچھ کر نہیں پا رہے۔

دہلی سے 110 کلومیٹر دور پوڑی مارگ اسی ضلع کی میراپور اسمبلی میں ایک اسکول کے باہر کچھ نوجوان لڑکے کھیلتے ہوئے ملتے ہیں۔ یہاں ان سے آج کی سیاست اور یوپی میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کو لے کر بات چیت ہوتی ہے۔ انہی میں سے ایک ہیں انعام خان۔ 32 سال کے انعام بتاتے ہیں کہ خصوصاً نوجوانوں کے دو ہی اہم مطالبات ہوتے ہیں۔ وہ کھیل کی بہتر سہولیات چاہتے ہیں اور بہتر روزگار چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس وہ دونوں ہی نہیں ہے۔ انعام بتاتے ہیں کہ وہ 22 سال سے کرکٹ کھیل رہے ہیں، لیکن وسائل اور تربیت کی کمی میں وہ کچھ نہیں کر پائے ہیں۔ انعام نے گریجویشن تک کی پڑھائی کی ہے اور اب تک وہ روزگار پانے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ انعام کہتے ہیں کہ نہ وہ کھلاڑی کے طور پر تیار ہو پائے اور نہ ہی انھیں ملازمت ملی۔ بدقسمتی سے ہماری حکومت اس موضوع پر سنجیدگی سے بالکل بھی غور نہیں کرتی ہے۔ ہم ناخواندہ لیڈر منتخب کرتے ہیں جو کھیلنے والے بچوں کو بے کار سمجھتے ہیں۔ یہاں کھیل کا میدان نہیں ہے۔ ہم قبرستان اور کھیت میں کرکٹ کھیلنے کو مجبور ہیں۔ اب من کی بات سے کچھ نہیں ہوگا، ہم کام کی بات چاہتے ہیں۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

روی راٹھی (33 سال) بتاتے ہیں کہ کھیل کے بغیر میں نہیں جی سکتا ہوں۔ کھیل زندگی کا اہم حصہ ہے۔ روی کہتے ہیں کہ وہ مظفر نگر ضلع کے بہترین شٹلر رہ چکے ہیں۔ انھوں نے بھی ملک کے لیے دوڑنے کا خواب دیکھا تھا، لیکن فیملی کی حالت اچھی نہیں ہونے کے سبب انھیں گھریلو ذمہ داری سنبھالنی پڑی۔ مجھے بہتر تربیت بھی نہیں ملی۔ میں سڑک کے کنارے دوڑ لگاتا تھا جہاں گاڑیاں بھی چلتی تھیں۔ اس وقت وہاں ڈر بھی لگتا تھا۔ صلاحیت خوب ہے لیکن دیہی علاقے میں یہ صلاحیت دب کر رہ جاتی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ لیڈروں کو عوام سے زیادہ مطلب نہیں ہے۔ ان کا انتخاب ذات پات اور ہندو-مسلم پر ہو جاتا ہے۔ نوجوان بھی بہک جاتے ہیں۔ کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ روی کہتے ہیں کہ ان کا بیٹا، جس کا نام ترنگ ہے، 8 سال کا ہے۔ اب ان کی خواہش ہے کہ جو وہ نہیں کر پائے وہ ان کا بیٹا کرے۔ ان کا خواب ہے کہ اپنے بیٹے کو ملک کے لیے کھیلتے ہوئے دیکھے۔

یہیں پر ہماری ملاقات ایک باصلاحیت کرکٹر ارجن میترے سے ہوتی ہے۔ 18 سالہ ارجن اچھے کرکٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایم سی اے کے لیے انڈر-19 کھیل چکے ہیں۔ وہ میرٹھ کے وکٹوریا پارک میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔ میرٹھ یہاں سے 55 کلومیٹر دور ہے۔ وہ جب وہاں کھیل رہے تھے تو ان کے کھیل میں کافی بہتری آئی۔ لیکن وہاں کھیلنا کافی خرچیلا تھا اور میری فیملی اسے برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اب یہاں میراپور میں کوئی کھیل کا میدان ہی نہیں ہے۔ سڑک پر کھیل نہیں سکتے۔ گلیوں میں پیشہ ور کھلاڑی کیسے بنیں گے۔ مستقبل تاریک لگتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں میں کھیلوں کے لیے تقریر ہے، لیکن زمین پر کوئی کام نہیں ہے۔ نوجوانوں کا ذہن بھی بہک جاتا ہے، ہم ہمیشہ کھرا لیڈر چننا چاہیے لیکن ہمارے پاس ویسے کوئی نظر نہیں آتا، جب تک ہندو-مسلمان کا فارمولہ کامیاب ہے، تب تک کھلاڑی فٹ نہیں ہو سکتے۔


مظفر نگر مغربی اتر پردیش کے اہم اضلاع میں شامل ہے۔ یہاں کشتی، کبڈی اور کرکٹ کا بہت اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں میں یہاں کچھ اچھے کھلاڑی سامنے آئے ہیں۔ کرکٹر بھونیشور کمار، پروین کمار اور موہت شرما یہیں کے رہنے والے ہیں۔ کشتی اور کبڈی میں بھی انوج پہلوان اور پردیپ جیسے بڑے نام ہیں۔ آپ یہاں سڑکوں پر نوجوانوں کو اکثر دوڑ لگاتے ہوئے دیکھتے ہوں گے۔ یہ نوجوان یہاں مختلف مقابلوں کی تیاری کر رہے ہیں۔ ایم کام کر چکے نوجوان شبھم بھاردواج (27 سال) اپنا پیر دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان کی ایڑی درد کر رہی ہے۔ وہ یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ اس کو کیسے آرام دیا جائے۔ وہ سڑک پر دوڑ لگاتے ہیں۔ بھرتی کے لیے خود کو فٹ رکھنے کے لیے کھیلتے ہیں۔ حال ہی میں یوپی میں داروغہ بھرتی کے لیے امتحان دیا تھا۔ روزگار کی حالت بہت خراب ہے۔ ایل ایل بی بھی کر لی ہے۔ مسئلہ کا کوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ رشتہ دار پوچھتے ہیں کہ لڑکا کیا کرتا ہے۔ یہ سوال سن کر مایوسی ہوتی ہے۔ ہماری سیاسی قیادت ٹھیک نہیں ہے، اسے نوجوانوں کے بارے میں غور کرنا ہوگا۔

روی شنکر ملک ایک نجی اسکول میں ٹیچر ہیں اور وہ بھی فزیکلی فٹ رہنے کے لیے کھیل کود کر رہے ہیں۔ روی شنکر ملک بتاتے ہیں کہ کھیل نوجوانوں کو فٹ رکھتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایک صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈران کا کھیل کی ترقی کی طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ نوجوان برباد ہو رہا ہے۔ اس کی سچ مچ کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ نوجوانوں کے اندر مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔ آج کل ملک کے نوجوانوں میں کافی منفی ماحول ہے۔ گاؤں میں ایک کہاوت ہے ’ٹھالّی دماغ شیطان کا گھر ہووے‘۔ ہمیں کھیلنے کا موقع ملے، روزگار ملے تو منفی ماحول اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا۔ اب تعمیری طور پر تو کچھ کرتے نہیں، رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے نکال دی ہے۔ لیڈروں کی سوچ وسیع نہیں ہے یا پھر وہ قصداً نوجوانوں کو مایوس کر رہے ہیں۔


میراپور کے اس اسمبلی حلقہ میں بی جے پی کے اوتار سنگھ بھڈانا موجودہ رکن اسمبلی ہیں۔ اوتار سنگھ بھڈانا اب جیور اسمبلی سیٹ سے آر ایل ڈی کی ٹکٹ پر انتخاب لڑ رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی یہاں ایک نوجوان لیڈر چندن سنگھ چوہان کو الیکشن میں کھڑا کر رہی ہے۔ بی جے پی نے غازی آباد کے پرشانت چودھری کو یہاں سے ٹکٹ دیا ہے۔ کانگریس یہاں سابق رکن اسمبلی مولانا جمیل کو انتخاب لڑوا رہی ہے۔ نوجوانوں میں مقامی لیڈر کا انتخاب بھی ایک ایشو ہے، حالانکہ ان میں سب سے زیادہ ناراضگی لیڈروں میں ڈیولپمنٹ صلاحیت کی کمی ہونا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لیڈر ہندو-مسلم سے باہر ہی نہیں نکل رہے۔ انھیں اسی میں فائدہ دکھائی دیتا ہے۔ اگر ایسا ہی رہا تو وہ اس بار ’نوٹا‘ کو ووٹ دیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔