یوپی ضمنی انتخابات: 11 سیٹوں کے نتائج کافی اہم
بی جے پی نے ابھی کسی سیٹ پر امیدوار کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پارٹی کو ہمیر پور سیٹ کے نتیجے کا انتظار ہے۔ ہمیر پور اسمبلی سیٹ پر گزشتہ کل ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ 27 ستمبر کو آئے گا۔
لکھنؤ: اترپردیش میں 11 سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج کافی اہم ہوں گے۔ ان نتائج کی بنیاد پر ہی یہ طے ہوگا کہ سال 2022 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کے سامنے کون سی پارٹی اصل حریف کے طور پر سامنے ہوگی۔
ریاست کے رامپور، جلالپور، پرتاپ گڑھ، لکھنؤ کینٹ، گنگوہ، مانکپور، بلہا، اگلاس، زید پور، گوندپور اور گھوسی سیٹ پر ضمنی انتخاب ہونے ہیں۔ ان میں سے نو سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ تھا جبکہ جلالپور سیٹ بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور رامپور سیٹ پر سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے کھاتے میں تھی۔
پیر کو ضمنی انتخابات کے لئے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے ساتھ نامزدگی کی کاروائی شروع ہوگئی ہے۔ حالانکہ کل کسی بھی پارٹی کی جانب سے کسی بھی امیدوار نے پرچہ نامزدگی داخل نہیں کی۔ نامزدگی کی کارروائی 30 ستمبر تک چلے گی اور یکم اکتوبر کو کاغذات کی جانچ ہوگی۔
بی جے پی نے کسی سیٹ پر ابھی امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پارٹی کو ہمیر پور سیٹ کے نتیجے کا انتظار ہے۔ ہمیر پور اسمبلی سیٹ پر گزشتہ کل ووٹ ڈالے گئے ہیں۔ جس کا نتیجہ 27 ستمبر کو آئے گا۔ پارٹی کو اسی سیٹ کے نتیجے کا انتظار ہے۔ ہمیر پور سیٹ بی جے پی کے اشوک چنڈیل کو ایک قتل کے معاملے میں عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد خالی ہوئی تھی۔
بی جے پی نے سبھی سیٹوں پر امیدواروں کا پینل تیار کیا ہے۔ پینل میں سبھی سیٹوں پر تین نام رکھے گئے ہیں۔ پارٹی کے سکریٹری (تنظیم) بنسل امیدواروں کی پوری فہرست لے کر کل شام دہلی کے لئے روانہ ہوگئے۔ اعلی کمار کی مہر لگنے کے بعد امیدواروں کے ناموں کا حتمی اعلان کیا جائے گا۔
وہیں دوسری جانب کانگریس نے بلہا کو چھوڑ کر سبھی سیٹوں پر اپنے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کر دیا ہے۔ امیدواروں کے نام کانگریس جنرل سکریٹری و اترپردیش کی انچارج پرینکا گاندھی واڈرا کی رضا مندی کے بعد طے کیے گئے ہیں۔ حالانکہ ریاست میں کانگریس کی حالت کافی خستہ ہے۔ اس کا تنظیمی ڈھانچہ بھی کافی کمزور ہے۔
راج ببر کے ریاستی صدر کے عہدے سے استعفی دینے کے بعد ابھی تک کسی کو بھی یوپی کانگریس کی کمان نہیں دی گئی ہے۔ پرینکا گاندھی واڈرا نے پارٹی کے سینئر لیڈروں سے بات کر کے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے۔
سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے سماج وادی پارٹی(ایس پی) کے ساتھ اتحاد کر کے انتخابی میدان میں اتری، باوجود اس کے اسے صرف سات سیٹوں پر ہی کامیابی مل سکی۔ راہل اور اکھلیش کی دوستی رائے دہندگان کو اپنی جانب مائل نہ کرسکی۔
سینئر لیڈر شیوپال سنگھ یادو کے باہر کیے جانے کے بعد سماج وادی پارٹی اور کمزور ہوگئی ہے۔ لوک سبھا کے انتخابات میں ایس پی کا بی ایس پی کے ساتھ اتحاد تھا، لیکن اسے صرف پانچ سیٹوں پر ہی کامیابی ملی۔ اس سے قبل 2014 کے انتخابات میں بھی ایس پی کو پانچ سیٹیں ملی تھیں۔
ایس پی سربراہ اکھلیش یادو نے بھی سبھی سیٹوں پر امیدواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا ہے۔ پارٹی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ تال میل کر کے انتخاب لڑنا چاہتی ہے۔ اس کے لئے اس کی سہیل دیو سماج پارٹی سے بات بھی چل رہی ہے۔ رامپور سیٹ سے ڈمپل یادو کے میدان میں اتارے جانے کی خبر گردش میں ہے۔
بہوجن سماج پارٹی ایک لمبے عرصے کے بعد ضمنی انتخاب میں قسمت آزما رہی ہے۔ پارٹی اب تک ضمنی انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تھی لیکن ریاستی اسمبلی میں اپنی طاقت بڑھانے کے لئے مایاوتی کو ضمنی الیکشن میں اترنا پڑ رہا ہے۔ سال 2017 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کو صرف 19 سیٹیں ملی تھیں اور اب کم ہوکر 18 ہی رہ گئی ہیں۔
ضمنی انتخابات میں اتر کر مایاوتی یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ریاست میں بی جے پی کا مقابلہ کانگریس یا ایس پی نہیں بلکہ صرف بی ایس پی ہی کرسکتی ہے۔ بی ایس پی نے ایس پی کے ساتھ اتحاد کر کے لوک سبھا کی دس سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی جبکہ سال 2014 کے عام انتخابات میں اس کا کھاتہ بھی نہیں کھل سکا تھا۔
وہیں دوسری جانب بی ایس پی کے زمین سطح پر کام کرنے والے لیڈروں کے پارٹی چھوڑنے اور نکالے جانے کی وجہ سے پارٹی کچھ کمزور ہوئی ہے۔ بلیا میں اپنی خاص پکڑ رکھنے والے مٹھائی لال ایس پی میں شامل ہوگئے ہیں تو کوشامبی اور الہ آباد کے ضلع صدور کو مایاوتی نے پارٹی مخالف سرگرمیوں کے پاداش میں بی ایس پی سے برخاست کردیا ہے۔ بجنور سے سابق رکن اسمبلی رچا ویرا کو بھی مایاوتی نے دو دن قبل پارٹی سے باہر کا راستہ دکھا دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔