یوپی: بی ایس پی حزب اختلاف کی کلیدی پارٹی بننے کے لئے کوشاں
پارٹی کے ایک رہنما کے مطابق اسی مقصد کے حصول کے لئے بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) نے ریاست میں 13 اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پوری طاقت و تیاری کے ساتھ حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
لکھنؤ: لوک سبھا انتخابات میں 10سیٹیں جیتنے والی بہوجن سماج پارٹی ریاست میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی اسمبلی میں پرنسپل اپوزیشن پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کے لئے کوشاں ہے۔ پارٹی نےسماج وادی پارٹی کی جگہ لینے کے لئے کوششیں تیز کردی ہیں۔
پارٹی کے ایک لیڈر کے مطابق اسی مقصد کے حصول کے لئے بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) نے ریاست میں 13 اسمبلی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پوری طاقت و تیاری کے ساتھ حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے نیز اس ضمن میں اس کے پیش نظر ان انتخابات میں سماج وادی پارٹی(ایس پی) کی شکست کو یقینی بنانا ہے۔ ان کے مطابق ’کمزور سماج وادی پارٹی کی صورت میں دلت۔مسلم کا اتحاد آنے والے ضمنی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے لئے نفع بخش سودا ثابت ہوسکتا ہے۔
سماج وادی پارٹی لیڈروں نے بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) پر الزام لگایا ہے کہ انتخابی فائدے کے پیش نظر بی ایس پی۔ بی جے پی میں ملی بھگت ہے۔ وہیں بی ایس پی پراعتماد ہے کہ اس کے کٹر حریف سماج وادی پارٹی کے سیاسی طور پر کمزور ہونے کا راست فائدہ اسے ہی ملے گا۔
بی ایس پی ذرائع کے مطابق ایس پی کا سیاسی طور سے حاشیہ پر جانے سے دلت۔مسلم انضمام کو تقویت ملی ہے۔ گزشتہ ایک مہینے میں سماج وادی پارٹی کے تین اراکین راجیہ سبھا نے پارٹی کو چھوڑا ہے اور بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے جبکہ دیگر دو اراکین کے بارے میں بھی چہ میگوئیاں ہیں کہ وہ بھی پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔
بی ایس پی سپریمو مایاوتی نے عام انتخابات کے فوراً بعد سماج وادی پارٹی سے اتحاد ختم کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس کے بعد مسلسل کانگریس کے ساتھ سما ج وادی پارٹی کو متعدد مسائل پر سخت تنقید کا نشانہ بناتی رہی ہیں۔ اس درمیان وہ بی ایس پی کو ہی بی جے پی کا واحد متبادل بھی بتاتی رہی ہیں۔ مئی میں ختم ہوئے عام انتخابات میں بی ایس پی۔ایس پی نے ایک ساتھ انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ جس میں بی ایس پی کو 10 جبکہ اکھلیش کی سربراہی والی سماج وادی پارٹی کو محض 5 سیٹوں پر جیت حاصل ہوئی تھی۔
سال 2017 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس۔ایس پی نے ایک ساتھ جبکہ بی ایس پی نے علیحدہ الیکشن میں حصہ لیا تھا۔ کانگریس کے ساتھ ایس پی کے اتحاد نے سماج وادی پارٹی کو مسلم ووٹروں کی پہلی پسند بناد ی تھی۔ اور مسلموں نے ماضی میں بی جے پی سے اتحاد کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے بی ایس پی پر بھروسہ نہیں جتایا تھا۔
عام انتخابات کے بعد یہ چرچا عام ہوئی کہ یادو سماج کے ایک مخصوص طبقے نے ایس پی پر بی جے پی کو ترجیح دی۔ وہیں بی ایس پی کو بھیم آرمی کے چیف چندر شیکھر آزاد سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ شیکھر دلت۔مسلم اتحاد کی مضبوط پچ تیار کرنے کے ساتھ اس بات کی وکالت کر ر ہے ہیں کہ دلتوں و مسلموں کا اتحاد یو پی کی مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ بی ایس پی کے ذرائع کے مطابق پارٹی شیکھر کی جانب سے مل رہے چیلنجز کو زمینی سطح پر سخت محنت کر کے مقابلہ کرسکتی ہے۔
ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 19.3 فیصدی ہے جبکہ دلت 21 ذاتوں میں منقسم ہونے کے ساتھ 21.1 فیصدی اور یادو سماج کا تناسب 9 فیصدی ہے۔ اس سے قبل مسلم اور یادو کے اتحاد نے سماج وادی پارٹی کو اقتدار کا مضبوط دعویدار بنایا تھا لیکن اب اگرچہ تاخیر سے ہی لیکن یادو ووٹوں میں سیندھ لگ چکی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 Aug 2019, 10:10 PM