اناؤ عصمت دری واقعہ: ملزم رکن اسمبلی کو لے کر بی جے پی کٹہرے میں
اناؤ عصمت دری متاثرہ اور اس کی فیملی کو تباہ کرنے کے لیے بی جے پی رکن اسمبلی اور اس کے ساتھیوں نے پولس انتظامیہ کے ساتھ تال میل کر لیا ہے۔ اس سے پردہ اٹھنے پر بی جے پی کے لیے مشکل کھڑی ہو گئی ہے۔
ملک گیر احتجاج کے درمیان یہ ایشو ترجیحی بنیاد پر ابھر رہا ہے کہ اپنے رکن اسمبلی کی کرتوتوں کو نظر انداز کرنے میں بی جے پی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسے آخر تک پارٹی میں بنائے رکھا۔ بی جے پی کے اس دعوے پر کوئی یقین نہیں کر رہا ہے کہ ملزم رکن اسمبلی کو اس نے پہلے ہی پارٹی سے ملتوی کر دیا تھا۔ بی جے پی اس بابت کوئی ثبوت پیش کیے بغیر ہوا میں تیر مارنے کی کوشش کر رہی ہے۔ رکن اسمبلی بھلے ہی جیل میں ہے لیکن سبھی کاموں میں ان کی طرف سے بیوی بی جے پی کی سرگرم لیڈر ہیں۔
حقوق انسانی کارکن کویتا شریواستو کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ سڑک حادثہ دکھا کر نہ صرف عصمت دری متاثرہ کو ختم کر دینا مقصد تھا بلکہ اس کی فیملی کا وجود بھی پوری طرح سے مٹا دینا تھا۔‘‘ کویتا کا الزام ہے کہ یو پی میں جس طرح گزشتہ دو سال سے آئے دن تصادم دکھا کر لوگوں کو مارا جا رہا ہے وہ عصمت دری و موب لنچنگ کے واقعات پر حکومت خاموش تماشائی ہے، اس میں ذرا بھی شک نہیں ہوتا کہ یہ سب حکومت کی طاقت اور دبدبے کا ہی نتیجہ ہے۔
کئی حقوق انسانی کارکنان اس بات پر بھی سوال پوچھ رہے ہیں کہ جب عصمت دری متاثرہ نے دو ہفتہ سے بھی پہلے ملک کے چیف جسٹس کو تحریری شکایت میں اپنے اور اپنی فیملی کو رکن اسمبلی کے غنڈوں کی جانب سے دی جا رہی دھمکیوں کے سبب جان سے بچانے کی اپیل کی تھی۔ دوسری طرف متاثرہ اور اس کے گھر والوں کا الزام ہے کہ سال بھر سے رکن اسمبلی کی جانب سے ان کے لوگ انھیں عدالت میں گواہی نہ دینے کا دباؤ بنا رہے تھے۔
اتر پردیش کے سابق ڈی جی پی ارون کمار گپتا کہتے ہیں ’’طاقتور لوگ اس طرح کے سنگین جرائم سے بچ نکلنے کا راستہ اس لیے نکال لے رہے ہیں کیونکہ ہمارا عدالتی نظام ایسا ہے کہ وسائل کی کمی کا شکار اور غریب لوگ مافیا عناصر کے خوف کے آگے کچھ نہیں کر پاتے۔
کئی لوگوں کو یہ ایسا معاملہ نظر آتا ہے جس میں رکن اسمبلی نے اتر پردیش میں اپنی پارٹی کی حکومت ہونے کا پورا فائدہ اٹھایا۔ مئی میں اختتام پذیر عام انتخابات میں جیل میں رہتے ہوئے پارٹی کا کام کیا۔ یہ تصدیق کسی اپوزیشن پارٹی نے نہیں بلکہ اناؤ سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے کی۔ انھوں نے اس کے لیے باقاعدہ سیتا پور جیل کا دورہ کیا جہاں میڈیا سے انھوں نے آن ریکارڈ کہا کہ لوک سبھا انتخابات میں رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے تعاون کے لیے شکریہ ادا کرنے گیا تھا۔
جائے واقعہ و اس دلدوز حادثے کے بارے میں پولس کے لگاتار مخالف بیانات نے اس پورے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا جس سے صاف لگا کہ پولس حادثہ میں سازش کے زاویہ کو نظر انداز کرنے کے لیے کسی دباؤ کا سامنا کر رہی ہے۔ جب دہلی سمیت ملک کے دوسرے حصوں سے اس اندوہناک حادثہ پر مخالفت کی آواز اٹھنے لگی، اس کے بعد ہی مودی-یوگی کی حکومت کو لگا کہ کچھ ٹھوس نہیں کیا گیا تو حالات گلے پڑ سکتے ہیں۔ سی بی آئی جانچ کی خبر آئی اور سازش میں شامل لوگوں کو حراست میں لینے کا ڈرامہ ہوا۔
سینئر سماجی کارکن اور سوراج انڈیا پارٹی کے بانی یوگیندر یادو کہتے ہیں ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سیاسی طاقت کے زور پر بی جے پی رکن اسمبلی کی ہمت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ جیل میں ہوتے ہوئے اتنے طاقتور تھے کہ بی جے پی ان کو پارٹی سے باہر کرنے کی طاقت بھی جمع نہیں کر پا رہی تھی۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ متاثرہ کے والد کی پولس حراست میں بے دردانہ پٹائی سے موت ہوتی ہے۔ متاثرہ انصاف پانے کے لیے لکھنؤ میں وزیر اعلیٰ کے جنتا دربار میں انصاف کے لیے جانے کو مجبور ہوتی ہے اور خودکشی کی دھمکی کے بعد ہی حکومت کی نیند ٹوٹتی ہے۔
دہلی میں انڈیا گیٹ اور سردار پٹیل مارگ واقع یو پی نواس کے باہر سماجی و حقوق انسانی کارکنان نے مظاہرہ کیا۔ لکھنؤ میں سیاسی و سماجی تنظیموں کو مظاہرہ کرنے سے روکا گیا۔ ملک کے کئی حصوں اور ریاستوں کی راجدھانیوں میں اگلے ہفتہ خاتون تنظیموں اور اپوزیشن پارٹی کارکنان کے مظاہروں کی تیاریاں ہیں۔ دہلی کے علاوہ کولکاتا، پٹنہ، بھوپال، جے پور، رائے پور، چنڈی گڑھ، شملہ، دہرہ دون میں عصمت دری متاثرہ و اس کی فیملی کو انصاف دلانے کے لیے کئی عوامی تنظیموں نے کمر کس دی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Jul 2019, 10:09 AM