یونیفارم سول کوڈ: عوام کے لیے یہ نہ ہی ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب!

یونیفارم سول کوڈ سے متعلق اکیسویں لاء کمیشن کی رپورٹ ہندوؤں کے رسوم و رواج کے پیچیدہ جال کی بات کرتی ہے اور یہ بھی کہ یہ ایشو کتنا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر</p></div>

علامتی تصویر

user

قومی آواز تجزیہ

اکیسویں لاء کمیشن نے 2018 میں ااخر کیوں کہا کہ اس وقت یکساں سول کوڈ (یونیفارم سول کوڈ) نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی مطلوب؟ یہ 2016 میں بی جے پی حکومت کے ذریعہ مقرر ایک کمیشن تھا لیکن غالباً کمیشن اس نتیجے پر اس لیے پہنچا کیونکہ یکساں شہری قانون کا قدامت پسند مسلمانوں سے بھی زیادہ قدامت پسند ہندوؤں کی طرف سے مخالفت ہونے کا اندازہ تھا۔

کمیشن کی رپورٹ ہندوؤں کے رسوم و رواج کے پیچیدہ جال کی بات کرتی ہے اور یہ بھی کہ یہ ایشو کتنا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ اس کا انکشاف 2011 کی مردم شماری کے چارٹ سی-3 سے ہوتا ہے جس میں مذہب اور جنس کی بنیاد پر ازدواجی حالت کی تفصیل شامل تھی۔ چارٹ 3 کے مطابق شادی شدہ ہندو خواتین (سکھوں، بودھوں اور جینیوں کو چھوڑ کر) کی تعداد شادی شدہ ہندو مردوں سے 43.5 لاکھ زیادہ تھی۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کثرت ازواج کے رشتے میں تھیں۔ یونیفارم سول کوڈ ان سے کیسے نمٹے گی؟ یا یکساں سول کوڈ ٹرانسجنڈرز، لیو-اِن-رلیشن شپ، تنہا غیر شادی شدہ سرپرستوں، طوائفوں کے بچوں کے ساتھ کیسا سلوک کرے گا؟


در حقیقت ایک ’یکساں‘ سول کوڈ کو ’سبھی‘ ہندوستانی شہریوں کا خیال رکھنا ہوگا کیونکہ مختلف پرسنل ایکٹ سے بندھے ان کے متنوع رسوم و رواج ہیں۔ بیشتر پرسنل ایکٹ خواتین اور دیگر جنس کے مفادات کے تئیں خاصے متعصب ہیں۔ مثال کے لیے خواتین اور دیگر جنس کی آبائی یا شادی پر مبنی ملکیت میں حصہ داری یا رکھ رکھاؤ اور گزارا بھتہ یا پھر گود لینے کا التزام۔ ایک پریکٹیکل یونیفارم سول کوڈ کو ہندو قوانین کی بالادستی سے بھی نمٹنا ہوگا۔ اسے یا تو ہندو غیر منقسم کنبوں (ایچ یو ایف) کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کو ختم کرنا ہوگا یا پھر ایسی ہی چھوٹ دیگر مذہب ماننے والوں کو بھی دینی ہوگی۔

بلاشبہ پرسنل ایکٹ کی پیروکاری کرنے والوں کے اپنے اپنے ذاتی مفادات بھی ہیں۔ موجودہ حالات میں تبدیلی کا مطلب ہے تمام طرح کے محفوظ مفادات اور طاقت کے ڈھانچہ میں ڈور اپنے ہاتھ میں رکھنے کے سسٹم میں تبدیلی۔ یہ خوف بیجا نہیں کہ یکساں سول کوڈ صرف کثرت ازواج پر روک کا معاملہ نہیں بلکہ اس کے ذریعہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور وقف بورڈ جیسے اداروں کے امور میں مداخلت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اقلیتی اداروں کو لے کر بھی فکر ہے کیونکہ یکساں سول کوڈ جب بھی نافذ کیا جائے گا، ان اداروں کو اسٹیٹ سے ملنے والے گرانٹس کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ ذیل میں یونیفارم سول کوڈ سے متعلق کچھ باتیں دی گئی ہیں جس سے اس قانون سے جڑے شبہات کو دور کیا جا سکتا ہے۔


یکساں سول کوڈ کیا ہے؟

یہ ایسے قوانین کا ایک مجموعہ ہے جو مذہب، ذات یا جنس کی پروا کیے بغیر شادی، طلاق، رکھ رکھاؤ اور گزارا بھتہ، وراثت اور گود لینے، جانشیں اور دوبارہ شادی، آبائی اور شوہر کی ملکیت میں خواتین کے حقوق، زنا اور کثرت ازواج جیسے موضوعات سے جڑا ہے۔

کیا یہ رضاکارانہ ہے؟

آئین ساز اسمبلی میں ڈاکٹر امبیڈکر نے اس امکان کے بارے میں بات کی تھی کہ پارلیمنٹ ایک دن ’پوری طرح سے رضاکارانہ‘ یونیفارم سول کوڈ کے لیے جگہ بنائے گا۔ اسپیشل میرج ایکٹ ایسے رضاکارانہ قانون کی بہترین مثال ہے جو ہندو میرج ایکٹ سے اوپر ہے، لیکن اس کے بعد بھی یہ دونوں قوانین عمل میں ہیں۔


کثرت ازواج کتنا مشہور؟

یہ بات تو کہی جاتی ہے کہ اسلام مردوں کو ایک وقت میں زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن ہندوستان کے قبائلی سماج میں مشہور کثرت ازواج (ایک سے زیادہ شوہر یا ایک سے زیادہ بیوی) کی طرف دھیان نہیں جاتا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ہندوستان میں ایک فیصد سے بھی کم مسلمانوں کی ایک سے زیادہ بیویاں ہیں، جبکہ ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا فیصد ہندوؤں میں کہیں زیادہ ہے اور کئی مرد ایک بیوی کو اپنے گاؤں میں تو ایک کو شہر میں رکھتے ہیں۔

یونیفارم سول کوڈ پر اکیسویں لاء کمیشن نے کیا کہا تھا؟

کمیشن نے 2016 میں ایک سوالنامہ جاری کر کے یونیفارم سول کوڈ پر لوگوں کی رائے مانگی تھی اور اس پر حاصل 75378 جواب پر غور کرنے کے بعد 2018 میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ’اس وقت یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب‘۔ اس کی جگہ اس نے برابری کو یقینی بنانے اور تفریق آمیز رسوم و رواج کو ختم کرنے کے لیے پرسنل لاء میں کچھ اصلاح کی وکالت کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔