کاس گنج فساد: بھگوا بریگیڈ والے ’ترنگا‘ نہیں ’بھگوا پرچم‘ لہرا رہے تھے

وہ ’ترنگے‘ کی مخالفت کیوں کریں گے، ترنگا تو ان کی شان ہے۔ دراصل کل یہاں آئے ہندو تنظیموں کے نوجوان ’بھگوا پرچم‘ لہرا رہے تھے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے کاس گنج شہر میں فساد کی جو وجہ بتائی جا رہی ہے حقیقت اس سے کچھ الگ ہی ہے۔ ہندو تنظیموں کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اے بی وی پی کی ’ترنگا یاترا‘ کی مخالفت کی گئی تھی جس کے بعد تشدد پیدا ہوا، لیکن تحقیق کے بعد یہ کہانی پوری طرح سے جھوٹی ثابت ہوئی ہے۔ کاس گنج کے مقامی لوگ بتاتے ہیں کہ وہ ’ترنگا‘ کی مخالفت کیوں کریں گے، ترنگا تو ان کی شان ہے۔ دراصل کل یہاں آئے ہندو تنظیموں کے نوجوان ’بھگوا پرچم‘ لہرا رہے تھے۔ مقامی باشندہ فہیم احمد اس سلسلے میں بتاتے ہیں کہ ’’مسلمانوں نے خود عبدالحمید چوک پر پرچم کشائی کی تقریب کا انعقاد کیا تھا، یہاں حب الوطنی سے سرشار ماحول تھا۔ اوپر ترنگا پرچم لہرا رہاتھا اور نیچے ایک خوبصورت رنگولی بنی ہوئی تھی جہاں حب الوطنی پر مبنی نغمے بج رہے تھے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کو اپنے ملک سے محبت ہے، وہ بھی ترنگا پرچم لہرا رہے تھے کہ اچانک ہندو تنظیموں کی ایک ٹیم آئی۔ اس میں تقریباً 50 موٹر سائیکل تھیں جس پر سوار لوگوں نے بھگوا پرچم لیا ہوا تھا۔ یہ سیدھے مسلمانوں کی تقریب میں گھس گئے۔‘‘

اس پورے معاملے کے چشم دید مناظر نے بھی ’ترنگا یاترا‘ کی مخالفت جیسی باتوں کو پوری طرح غلط قرار دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’گاڑی پر سوار نوجوان اپنی بائیک سے رنگولی کو خراب کرنے اور بھگوا جھنڈے کو ہمارے ترنگے سے اونچا کرنے لگے جس پر وہاں موجود لوگوں کو اعتراض ہوا اور ہم نے ایسا کرنے سے منع کیا۔‘‘ مناظر مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’پہلے میں نے خود مقامی کوتوال کو پورے واقعہ کی خبر دی۔ انھوں نے کہا کہ وہ فوراً آ رہے ہیں، لیکن انھیں آنے میں تاخیر ہوئی۔ اس کے بعد یہاں ہندو تنظیموں سے تعلق رکھنے والے لڑکے ’ہندوستان میں رہنا ہوگا، وندے ماترم کہنا ہوگا‘ نعرے لگانے لگے۔‘‘ مناظر نے اپنے موبائل میں ایک ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ ’’مسلمانوں نے ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے، ہمارے پاس ویڈیو ہے آپ دیکھ لیجیے۔ اس کے بعد یہ لوگ گھروں میں گھسنے لگے اور مسجد کی طرف بھی بڑھے جس کے بعد جھگڑا شروع ہو گیا۔‘‘

کاس گنج میں اس وقت حالات کشیدہ ہیں اور کئی جگہ سے آگ زنی کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ یہاں پوری طرح دہشت کا عالم ہے۔ گولی لگنے سے ہلاک نوجوان چندن سے اے بی وی پی نے خود کو کنارہ کر لیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ چندن اے بی وی پی کارکن نہیں تھا۔ اس سلسلے میں چندن کے والد سبھاش گپتا کا کہنا ہے کہ ’’ان کا بیٹا ہندو تنظیم سے جڑا ہوا تھا اس کی جانکاری انھیں نہیں تھی۔‘‘ کاس گنج ایٹہ کے قریب ایک چھوٹا ضلع ہے جس سے آگرہ اور علی گڑھ دونوں برابر دوری پر ہیں۔ اس وقت علی گڑھ کے کمشنر سبھاش چندر شرما اور آئی جی سنیل کمار گپتا وہیں کیمپ کیے ہوئے ہیں۔ لکھنؤ سے آئی جی ڈی کے ٹھاکر کاس گنج پہنچ چکے ہیں۔ فی الحال مسلم محلوں میں چھاپہ ماری چل رہی ہے۔ اقلیتی طبقہ نے خود کو اپنے گھروں میں قید کر لیا ہے۔ مقامی باشندہ رئیس احمد نے ہمیں بتایا ہے کہ ’’ہنگامہ قصائی مارکیٹ میں ہوا لیکن دہشت میں پورا علاقہ ہے اور مسلمانوں نے خود کو گھروں میں قید کر لیا ہے اور وہ خوف میں مبتلا ہیں۔‘‘

آج دن بھر ہنگامے کا عالم رہا، کاس گنج کی سبھی سرحدیں سیل کر دی گئی ہیں اور باہر سے کسی کی آمد پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ یہاں لکھنؤ سے کثیر تعداد میں پولس فورس بھیجی گئی ہے۔ یہاں پہلے سے ہی5 کمپنی پی اے سی، ایک کمپنی آر اے ایف موجود تھیں، اس کے باوجود آج ایک درجن سے زائد گاڑیاں اور دکانیں خاکستر کر دی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پولس نے مسلم علاقوں میں سرچ آپریشن چلا رکھا ہے اور نصف درجن سے زائد مسلم نوجوانوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ کاس گنج کے ضلع مجسٹریٹ آر پی سنگھ نے حالات قابو میں ہونے کی بات کہی ہے۔ فساد کے سلسلے میں انھوں نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ ’’مسلم اکثریت والے علاقے میں ایک مسجد میں گھسنے اور اور گھروں میں گھسنے کی کوشش کے بعد مسلم نوجوانوں سے ان کا جھگڑا ہو گیا اور فائرنگ میں ایک ہندو کارکن کی موت ہو گئی۔‘‘ انھوں نے مزید بتایا تھا کہ ’’معاملے میں زخمی ایک دوسرے شخص نوشاد کی حالت سنگین ہے اور اسے علی گڑھ اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ یہ واقعہ آگرہ ہائی وے سے ملحق محلہ بدو نگر میں ہوا۔‘‘

اطلاعات کے مطابق ہندو تنظیموں کے سینکڑوں نوجوان تقریباً 50 بائیک پر سوار ہو کر ترنگا یاترا نکال رہے تھے اور مسلم اکثریتی علاقے میں جا کر انھوں نے حد سے زیادہ جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے قابل اعتراض نعرے لگائے۔ ایک چشم دید کے مطابق ہندو شدت پسندوں نے ’منھ میں گلوری بغل میں پان، مُلّو تم جاؤ پاکستان‘ کے نعرے لگائے۔ چشم دید نے یہ بھی بتایا کہ ان کے جلوس میں ترنگا پرچم کم اور بھگوا پرچم زیادہ نظر آ رہے تھے۔ ہنگامہ کے بعد ہندو نوجوانوں نے اسی علاقے کی مسجد میں گھسنے کی کوشش کی اور اس کے بعد دونوں فریق میں جھگڑا شروع ہو گیا۔

اے ڈی جی پی (قانون و انتظامیہ) آنند کمار کے مطابق یہ ایک منصوبہ بند طریقے سے پیش آیا واقعہ نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے۔ حالانکہ مقامی لوگوں سے بات کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ کاس گنج تین دن سے جل رہا تھا۔ یہاں کوتوالی حلقہ میں چامنڈا دیوی مندر پر گیٹ لگنے کے سلسلے میں زبردست کشیدگی تھی۔ اس مندر میں گیٹ لگانے کی مسلمانوں کے ایک گروپ نے مخالفت کی تھی جس کے بعد یہاں اس گیٹ کو سرکاری مشینری کے ذریعہ لگانے سے روک دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی کاس گنج سلگتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو یہ محکمہ خفیہ کے ناکام ہونے کا معاملہ ہے۔

بہر حال، آگرہ کے اے ڈی جی پی اجے آنند نے کہا ہے کہ حالات قابو میں ہیں اور ہر ایک نکتے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ کے بیٹے راجویر سنگھ عرف راجو بھیا یہاں سے ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ انھوں نے فوراً اعلان کر دیا ہے کہ اب ہندو خاموش نہیں بیٹھے گا جس کے بعد پورے کاس گنج میں ایک دہشت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Jan 2018, 7:10 PM