متحدہ اپوزیشن کا سامنا کرنے کے امکان پر سنگھ اور بی جے پی میں بے چینی

بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے پیشن گوئی کی ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے ساتھ براہ راست مقابلہ میں، بی جے پی 2024 کے عام انتخابات میں صرف 50 لوک سبھا سیٹیں ہی جیت پائے گی۔

نتیش کمار اور راہل گاندھی
نتیش کمار اور راہل گاندھی
user

ارون سریواستو

ارون سریواستو

ہفتہ کو پٹنہ میں اپنی پارٹی کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، بہار کے وزیر اعلی اور جے ڈی (یو) کے سربراہ نتیش کمار نے کہا کہ لوک سبھا میں بی جے پی کی تعداد 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 50 سے زیادہ نہیں رہ سکتی۔ ان کا یہ بیان ٹھیک اس سے قبل آیا جب ان کی حزب اختلاف کے رہنماؤں سے ملنے کا پروگرام تھا۔ یہ دعویٰ اس تجربہ کار رہنما کی طرف سے آیا جو اس طرح کی پیشن گوئیاں کرنے یا کسی بھی قسم کے قیاس آرائیوں کے کھیل میں ملوث ہونے سے گریز کرنے کے لیے جانا جاتا ہے، اور ان کے اس بیان نے یقیناً بی جے پی کو جھنجھوڑ دیا ہوگا۔

نتیش نے واضح کر دیا ہے کہ اپوزیشن کے سامنے سب سے اہم کام بی جے پی کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے متحد ہو کر ایک چھتری کے نیچے آنا ہے۔ انہوں نے وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہونے کی کسی بھی بات کو مسترد کیا اور زور دے کر کہا کہ ان کا واحد مقصد بی جے پی کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن کو متحد کرنے کے لیے کام کرنا ہے۔


تاہم، اپوزیشن جماعتوں کے لیے یہ تسلیم کرنا بھی ضروری ہے کہ انہیں ووٹروں کو پولرائز کرنے اور لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کے لیے بی جے پی کے شیطانی منصوبے کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے سینئر ساتھی اس خطرے سے بخوبی واقف ہوں گے کہ متحدہ اپوزیشن ان کی قیادت کے لئے خطرہ ہے۔

مہاراشٹر میں ایک مراٹھا کو دوسرے کے خلاف کامیابی کے ساتھ کھڑا کرنے کے بعد، مودی-شاہ کی جوڑی یقیناً یوپی اور بہار میں اسی طرح کی حکمت عملی بنا رہی ہوگی۔ ایک طریقہ یہ ہوگا کہ او بی سی اور دلتوں کو ذات پات اور ذیلی ذات کے خطوط پر عمودی طور پر تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے۔


اب، آر ایس ایس رہنما جو انتخابات کے ذریعے سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے مودی-شاہ کے انداز سے مطمئن نہیں ہیں۔ آر ایس ایس کے زیادہ تر لیڈر عوام میں اپنا منہ کھولنا پسند نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر جو قانون سازوں کی خریداری نے سنگھ اور اس سے وابستہ افراد کی شبیہ کو داغدار کیا ہے۔

آر ایس ایس کے ایک سینئر رہنما نے اعتراف کیا کہ وہ یقینی طور پر انتخابات جیتنا چاہیں گے، لیکن تنظیم کی شبیہ کی قیمت پر نہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ نتیش نے این ڈی اے کو نہیں چھوڑا بلکہ مودی-شاہ نے اپنی ہی چالوں سے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا ہوگا۔ انہوں نے دلیل دی کہ نتیش نے 2017 میں لالو یادو کا ساتھ چھور کر این ڈی اے میں واپس آگئے تھے۔ ان کی چالوں کا صحیح تناظر میں تجزیہ کرنے کے بجائے، انہوں نے ان کے خلاف سازشیں شروع کر دیں، نتیش کے آدمی کو اپنی پارٹی کو تقسیم کرنے اور ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کرنے لگے۔


ان کا ایک مضبوط اور درست سوال تھا کہ کیا یہ دونوں لیڈر مانتے ہیں کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد بی جے پی میں شامل ہونے والے زیادہ تر لوگ اقتدار کھونے کے بعد بھی پارٹی کے وفادار رہیں گے؟ ستم ظریفی یہ ہے کہ پارٹی میں ان کی تعداد کافی ہے۔ اگر وہ اس پارٹی کو چھوڑ سکتے ہیں جس نے انہیں تیار کیا اور انہیں سیاست کی بنیادی باتیں سکھائیں تو وہ بی جے پی کو چھوڑنے میں بالکل نہیں ہچکچائیں گے۔

جہاں تک نتیش کا تعلق ہے، منی پور میں جے ڈی (یو) کو الگ کرنے کے اقدام نے انہیں کافی حد تک ناراض کر دیا ہے۔ جے ڈی (یو) کے قومی اجلاس میں، جب پارٹی سربراہ للن سنگھ نے بی جے پی پر قانون سازوں کی وفاداری تبدیل کرنے کے لیے پیسے کی طاقت کا استعمال کرنے کا الزام لگایا، تو بظاہر ناراض نتیش نے کہا، ''کیا یہ مناسب ہے؟ کیا یہ آئینی ہے؟ کیا یہ طے شدہ اصولوں کے مطابق ہے؟"


انہوں نے مزید کہا کہ ’’بی جے پی لیڈر ہر جگہ اس کا سہارا لے رہے ہیں۔ اس لیے تمام جماعتوں کو 2024 میں ایک مثبت مینڈیٹ کے لیے متحد ہونا چاہیے۔ جب ہم این ڈی اے میں تھے تو انہوں نے (بی جے پی) ہمارے ایم ایل اے کو کچھ نہیں دیا اور اب ان کی وفاداری تبدیل کرائی جا رہی ہے۔"

مختلف چیلنجوں کے علاوہ جن کا نتیش کو سامنا ہے، گودی میڈیا نے ان کے خلاف ایک گھٹیا مہم شروع کی ہوئی ہے اور یہ سب بی جے پی قیادت کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے۔ اس اقدام کا مقصد لوگوں میں یہ غلط تاثر پیدا کرنا ہے کہ اپوزیشن بری طرح منقسم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔