پی ایم مودی کا ’اُجولا یوجنا‘ بھی ناکارہ ثابت، رپورٹ میں انکشاف

’اُجولا یوجنا‘ جھارکھنڈ کے کئی علاقوں میں پوری طرح ناکام ہے۔ دور دراز جنگلوں میں رہنے والے قبائل آج بھی لکڑی کے چولہے پر کھانا بناتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ گیس چولہا ان کی ضرورتیں پوری نہیں کرتا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

روی پرکاش

نریندر مودی کا دیرینہ منصوبہ ’اُجولا یوجنا‘ بھی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔ جھارکھنڈ کے کچھ گاؤں کی رپورٹ بتاتی ہے کہ زیادہ تر لوگوں نے سلنڈر خالی ہونے کے بعد گیس نہیں بھرائی کیونکہ وہ اس کے لیے ہزار رپوے کا انتظام نہیں کر پائے۔ ایسی ہی حالت ملک بھر میں ہونے کا امکان ہے۔ ظاہر ہے، اسی وجہ سے مودی کا یہ منصوبہ زمینی سطح پر پوری طرح ناکام ہو گیا۔

سکھیا سنگھ گیس کے چولہے پر کھانا نہیں بناتی ہیں۔ ان کی ضرورتیں اس سے پوری نہیں ہوتیں۔ وہ آج بھی مٹی کے چولہے پر کھانا بناتی ہیں اور جوڑ توڑ کر کے یہی ان کے بجٹ میں آ پاتا ہے۔ ہر مہینے 1000 روپے خرچ کر گیس کا سلنڈر بھرا پانے لائق ان کی آمدنی نہیں۔ اس لیے اُجولا یوجنا کے تحت ملا گیس چولہا اب ان کے گھر کے ایک گوشے میں پڑا ہوا ہے۔ انھوں نے اسے پلاسٹک سے چھپا دیا ہے تاکہ زنگ نہ لگے۔ اس کے ساتھ ملا سلنڈر بھی تین مہینے سے خالی پڑا ہے۔ وہ جھارکھنڈ کے انڈسٹریل شہر جمشید پور سے کچھ ہی کلو میٹر دور گوبر گھسی پنچایت کے ایک گاؤں میں رہتی ہیں۔ یہ ہاتھیوں کے جنگل کے لیے مشہور دلما رینج کے جنگلوں میں بسا ہے۔

ان کے گاؤں کے زیادہ تر گھروں کی یہی حالت ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعہ خوب تشہیر کیے گئے منصوبہ سے ملے چولہے ان گھروں میں ’سجانے کا سامان‘ بھر ہے اور سلنڈر خالی ہونے کے بعد دوبارہ بھرائے نہیں جا سکے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ سلنڈر کی قیمت ہے۔ خط افلاس سے نیچے (بی پی ایل) زندگی گزارنے والے ان خاندانوں کے سبھی اراکین کی کمائی ملا کر بھی اتنی نہیں ہے کہ وہ ہر مہینے 1000 روپے کا انتظام کر سلنڈر بھروانے کی ہمت کر سکیں۔ انھیں منریگا کے تحت ہر مہینے کام نہیں ملتا۔ یہ لوگ دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری کر کسی طرح گھر چلاتے ہیں۔

دراصل یہ صرف ایک گاؤں کی کہانی نہیں ہے۔ جھارکھنڈ کے تمام گاؤں میں کم و بیش ایسی ہی حالت ہے۔ اس وجہ سے اُجولا یوجنا جھارکھنڈ کے بیشتر علاقوں میں ناکام ثابت ہو رہی ہے۔ دور دراز جنگلوں میں رہنے والے قبائلی آج بھی لکڑی کے روایتی چولہے پر کھانا بناتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ گیس کا چولہا ان کی ضرورتیں پوری نہیں کرتا۔ بقول سکھیا، انھیں اپنے گھر کے 7 لوگوں کا کھانا بنانے کے علاوہ دھان بھی اُبالنا ہوتا ہے تاکہ وہ چاول کی کٹائی کر سکیں۔ ان کے علاقے میں دونوں سیزن میں دھان کی ہی فصل ہوتی ہے اور دھان کٹنے کے بعد پورے پورے دن اسے ابالا جاتا ہے تاکہ اس سے اُسنا چاول تیار کرایا جا سکے۔ اسے ہی ان کے گھر کے لوگ کھاتے ہیں اور کبھی کبھی فروخت بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گیس کے چولہے پر بڑا تسلا (دھان ابالنے کا برتن) چڑھانے میں بھی دقت ہوتی ہے اور گیس بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اس وجہ سے تین مہینے قبل انھیں مفت میں ملا سلنڈر صرف 23 دن چل کر خالی ہو گیا۔ اس کے بعد سے انھوں نے اپنا سلنڈر دوبارہ نہیں بھروایا۔

گوبر گھُسی کے مکھیا کھگیندر ناتھ سنگھ نے بتایا کہ ان کی پنچایت کے سبھی گاؤوں میں یہی حالت ہے۔ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ وہ سلنڈر بھروا سکیں۔ انھوں نے بتایا کہ محکمہ جنگلات کے لوگوں نے پہلے تو گاؤں والوں سے کلہاڑی جمع کرانے پر اُجولا یوجنا کا فائدہ ملنے کی شرط رکھی تھی۔ تب بھی اس کی پرزور مخالفت ہوئی کیونکہ کلہاڑی ہمارے لیے صرف ایک اوزار نہیں بلکہ یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ قبائلی لوگ اس کی پوجا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے لوگ گیس چولہا لینے کے لیے پہلے تیار ہی نہیں ہوئے۔ جو گنتی کے لوگ تیار بھی ہوئے، انھوں نے اپنا سلنڈر دوبارہ نہیں بھروایا۔ ان کا ماننا ہے کہ حکومت کو ایسے فیصلے لینے سے پہلے گیس سلنڈر کی قیمت کم کرنی چاہیے تھی۔ ورنہ ایسے منصوبے صرف کاغذوں پر ہی چل سکیں گی۔ زمین پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔

جھارکھنڈ حکومت نے ریاست میں کل 28 لاکھ 55 ہزار 904 خاندانوں کو اُجولا یوجنا سے فائدہ پہنچانے کا نشانہ رکھا تھا۔ ان میں سے قریب 25 لاکھ گھروں کو اس کے تحت کنکشن دے دیے گئے ہیں۔ 16 اکتوبر 2016 کو جھارکھنڈ میں اُجولا یوجنا کی شروعات ہوئی تھی لیکن گیس کی قیمت زیادہ ہونے اور گاؤں کے باشندوں کی ضرورتوں کے لیے 14.2 کلو کا سلنڈر کم پڑنے کے سبب یہ منصوبہ بری طرح ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ ہندوستان پٹرولیم اور انڈین آئل سے جڑے افسر یہ اعتراف تو کرتے ہیں کہ لاکھوں لوگوں نے اپنا سلنڈر دوبارہ نہیں بھروایا ہے لیکن وہ اس کے اسباب پر باضابطہ بات چیت کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 24 Nov 2018, 11:09 AM