بنگال میں ’رام رام‘ کے بعد کیا ہو گا ’وام‘ کا مستقبل، 2 دن کا اجلاس آج سے
اپنے سب سے خراب سیاسی دور سے گزرنے والی سی پی ایم آج اور کل تمام سیاسی حالات پر غور کرے گی اور بہت ممکن ہے کہ پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اجلاس میں اپنا استعفیٰ پیش کر دیں۔
سی پی ایم سینٹرل کمیٹی کا دو روزہ اجلاس آج سے شروع ہو گا۔ فیصلہ لینے والی پارٹی کی سب سے اعلی کمیٹی کے اس دو روزہ اجلاس میں حال میں اختتام پزیر ہوئے عام انتخابات میں سب سے خراب کارکردگی اورمایوسی کے اس دور سے باہر نکلنے کے لئے ممکنہ اقدامات پر تبادلہ خیال ہوگا۔ اس اجلاس میں پارٹی کے جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری اپنا استعفیٰ پیش کر سکتے ہیں اور ذرائع کے مطابق وہ قبول نہیں ہوگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اجلاس بہت ہنگامہ خیز ہوگا کیونکہ اس سال کے عام انتخابات میں سی پی ایم کی اب تک کی سب سے خراب کارکردگی سامنے آئی ہے اور ووٹ فیصد کو اگر دیکھا جائے تو اس پارٹی کا قومی پارٹی کا اسٹیٹس بھی ختم ہو سکتا ہے۔ سی پی ایم کو اپنے روائتی گڑھ یعنی کیرالہ، بنگال اور تریپورا سے عام انتخابات میں ایک بھی سیٹ نہیں ملی اور اس کا ووٹ فیصد محض 17 فیصد رہ گیا ہے۔ 2004 میں سی پی ایم کی لوک سبھا میں سب سے زیادہ نمائندگی ملی تھی یعنی اس کے 43 ارکان تھے اور اس مرتبہ سب سے کم یعنی تین ارکان ہی ہیں۔
سینٹرل کمیٹی کے اس اجلاس میں تمام پہلوؤں پر غور و خوض ہوگا اور اس پرتبادلہ خیال ہوگا کہ پارٹی نے تمل ناڈو میں کانگریس اور ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد کیا اور اس کا فائدہ بھی ہوا کیونکہ اس کو تین میں سے دو سیٹیں وہیں سے ملی ہیں جبکہ پارٹی نے تلنگانہ اور آندھرا میں ٹی آر ایس اور وائی ایس آر کانگریس کے ساتھ اتحاد نہیں کیا جس کا اسے نقصان ہوا۔ اجلاس میں اس با ت پر بھی غور ہوگا کہ ویسے تو سی پی ایم بی جے پی کی فرقہ پرست سیاست کی سخت مخالفت کرتی ہے لیکن بنگال میں اس کا کیڈر ترنمول کی نفرت میں اتنا اندھا ہو گیا ہے کہ انہوں نے نعرہ دے دیا ’اب کے رام بعد میں وام‘۔ اس سوچ کا یہ اثر ہوا کہ سی پی ایم کا کیڈر بڑی تعداد میں بی جے پی کے ساتھ چلا گیا جس کا بی جے پی کو زبردست فائدہ ہوا۔
واضح رہے کہ مغربی بنگال میں پورے بائیں محاذ کا ووٹ فیصد 2014 کے29.93 فیصد ووٹ سے گھٹ کر 7.46فیصد پر آ گیا جبکہ بی جے پی کا ووٹ فیصد 2014 کے اپنے 17.02فیصد سے بڑھکر 2019 میں 40.25 فیصد ہو گیا۔ ادھر آندھرا پردیش میں وائی ایس آر کانگریس سی پی ایم کے ساتھ اتحاد کرنا چاہتی تھی لیکن سی پی ایم نے بغیر تبادلہ خیال کیے ہی اس پیش کش کو مسترد کر دیا۔ واضح رہے آندھرا میں سی پی ایم کا ووٹ فیصد ایک فیصد سے بھی کم ہوگیا ہے جبکہ وائی ایس آر کانگریس کا ووٹ فیصد پچاس فیصد تک پہنچ گیا۔ کچھ اسی طرح سی پی ایم نے تلنگانہ میں ٹی آر ایس کے ساتھ بھی کیا اور اتحاد کرنے سے انکار کر دیا جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ دونوں ریاستوں کے سربراہ دراصل پرکاش کرات گروپ کے ہیں۔
یہ بات صاف ہے کہ سی پی ایم میں پرکاش کرات کا گروپ مستقل سیتا رام یچوری کے لئے مسئلے کھڑا کرتا رہتا ہے اور اس کی کوشش رہتی ہے کہ یچوری کے فیصلوں کو حمایت نہ دی جائے اور جس کا سیدھا نقصان پارٹی کو ہو رہا ہے۔ تریپورا میں سال 2013 کے اسمبلی انتخابات میں سی پی ایم کو 65 فیصد ووٹ ملے تھے جو 2014 میں کم ہو کر 45 فیصد رہ گئے اور اب وہ گھٹ کر 25 فیصد رہ گئے ہیں لیکن اس گراوٹ کو روکنے کے لئے پارٹی کی جانب سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہوئی۔
سی پی ایم نے تین سیاسی غلطیاں کی ہیں جس کے نتائج اب اس کے سامنے آ رہے ہیں۔ پہلی غلطی1990 میں ہوئی جب مغربی بنگال کے سابق وزیر اعلی جیوتی باسو کو راجیو گاندھی نے وزیر اعظم بنانے کی پیش کیش کی تھی لیکن انہوں نے اس پیش کش کو تسلیم کرنے سے انکار کرد یا تھا۔ اس کے بعد پرکاش کرات کا جنرل سکریٹری منتخب ہونا جو پارٹی کو وقت کے ساتھ چلانے میں پوری طرح ناکام رہے اور نیوکلیر ڈیل پر سخت موقف اختیار کیا۔ تیسری غلطی اس سال کی ہے جب پارٹی نے بی جے پی مخالف پارٹیوں سے اہم ریاستوں میں اتحاد نہیں کیا۔ یہ ایسی غلطیاں ہیں جن کی تلافی بھی اب نظر نہیں آ رہی ہے۔ دیکھیے اجلاس میں ہنگامہ کے بیچ پارٹی اپنے مستقبل کے لئے کون سا راستہ اپناتی ہے۔ بنگال نے تو سی پی ایم کو ’رام رام‘ کہہ دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ’وام‘ کیا ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Jun 2019, 12:10 PM