مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش ملک کو تقسیم کرا دیگی! رگھورام راجن کا انتباہ
رگھورام راجن نے کہا کہ اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کرے گی اور اندرونی ناراضگی کا باعث بنے گی اور اکثریتی آمریت کا مقابلہ کیا جانا چاہئے
رائے پور: ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر اور معروف ماہر اقتصادیات رگھورام راجن نے اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوشش کے خلاف ملک کو خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کرے گی اور اندرونی ناراضگی کا باعث بنے گی۔ رگھورام راجن نے کہا کہ اکثریتی آمریت کا مقابلہ کیا جانا چاہیے۔ رگھورام راجن چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور میں منعقدہ آل انڈیا پروفیشنل کانگریس کی پانچویں سالانہ کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رگھو رام راجن نے کہا کہ ہمارا مستقبل ہماری لبرل جمہوریت اور اس کے اداروں کو مضبوط کرنے میں ہے، انہیں کمزور کرنے میں نہیں۔ ایسی بہت سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر ہمیں اکثریتی آمریت کا سامنا کرنا چاہیے اور اسے شکست دینا چاہیے۔
انہون نے کہ ’’ایک بڑی اقلیت (مسلمانوں) کو دوسرے درجے کے شہریوں میں تبدیل کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک کو تقسیم کرے گی اور اندرونی ناراضگی پیدا کرے گی۔ اس سے جغرافیائی سیاسی انتشار کے اس دور میں ہمارا ملک بھی کمزور ہو جائے گا اور غیر ملکی مداخلت کا خطرہ لاحق ہو جائے گا۔‘‘
سری لنکا کی مثال دیتے ہوئے آر بی آئی کے سابق گورنر نے کہا کہ نتیجہ دیکھنے کے لیے ہمیں جنوب میں سری لنکا کی طرف دیکھنا ہوگا۔ اگر کسی ملک کے سیاست دان اقلیتوں پر حملہ کر کے روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہوتے ہیں اور پھر اس سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے۔ رگھورام راجن نے کہا کہ ملک میں ایسا ماحول ہونا چاہیے جس میں ہر شخص کے لیے ترقی کے مواقع دستیاب ہوں۔
اپنے ایک سابقہ بیان میں بھی رگھورام راجن نے اقلیت مخالف شبیہ کے نقصانات کا تذکرہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ہمارے ملک کی شبیہ اقلیت مخالف بن جاتی ہے تو اس کے سبب غیر ملکی حکومتیں ہندوستان پر اعتماد کرنے میں ہچکچا سکتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ سرمایہ دار آپ کو ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر نہ دیکھے۔
آر بی آئی کے سابق گورنر نے کہا کہ جمہوریت ہمیشہ آسان نہیں ہوتی اور اسے لگاتار راہ دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جمہوریت میں وقتاً فوقتاً تمام فریقین سے بات چیت کرنے اور حسب ضرورت تبدیلی کرنے کا کام کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے روس اور چین کی مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان ممالک میں چیک اور بیلنس نہیں ہونے کے سب انہیں کافی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
اقلیتوں کے معاملے پر رگھورام راجن نے کہا، ’’اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک پوری دنیا میں ایک بری تصویر پیش کرتا ہے، اور سرمایہ کار آپ کو ایک قابل اعتماد شراکت دار کے طور پر دیکھنا بند بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔