اتحاد امت کے پیغام کے ساتھ سہ روزہ امام علی بین الاقوامی کانفرنس اختتام پذیر
انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد سہ روزہ ’امام علی بین الاقوامی کانفرنس‘ 19 اگست کو اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر بین الاقوامی منقبتی مشاعرے میں دنیا بھر کے شعراء کرام نے نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔
حضرت علی کی شہادت کے چودہ سو برس مکمل ہونے کی مناسبت سے انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں منعقد سہ روزہ امام علی بین الاقوامی کانفرنس پیر کو اختتام پذیر ہوئی۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے آئے دانشوروں نے اپنے مقالے پیش کئے۔ کانفرنس کے اخیر میں ایک عالمی منقبتی محفل منعقد کی گئی جس میں مختلف ممالک سے آئے شعراء نے حضرت علی کو منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا۔
واضح رہے کہ سفینۃ الہدایہ ٹرسٹ اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ عرب اسٹڈیز نے دہلی اقلیتی کمیشن کے تعاون سے اس سہ روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ عالمی شہرت یافتہ عالم آیت اللہ سید عقیل الغروی اور بین الاقوامی طور پر معروف دانشور ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی قیادت میں ہوئی اس کانفرنس میں تمام مسالک اور مکاتب فکر کے سرکردہ علماء نے شرکت کرکے اتحاد بین المسلمین کا ایک مضبوط پیغام دیا۔
کانفرنس میں کل تیرہ اجلاس ہوئے جن میں آٹھ سیشن اردو مقالات پر مشتمل تھے جبکہ پانچ علیحدہ اجلاس انگریزی مقالات کے لئے مختص رہے۔اس کے ساتھ ساتھ افتتاحی اور اختتامی اجلاس میں دنیا بھر سے آئے دانشوروں نے حضرت علی کی تعلیمات اور انسانوں کے لئے ان کے پیام پر گفتگو کی۔
کانفرنس کے لئے خصوصی طور پر تشریف لائے دانشوروں میں ایران کی مجلس خبرگان کے رکن اور مسلمان مکاتب فکر کے اتحاد کے لئے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم کے جنرل سکریٹری آیت اللہ محسن اراکی،آیت اللہ سید محمد صادق الموسوی، عالمی شہرت یافتہ براڈ کاسٹر رضا علی عابدی (لندن)، علامہ سید ذوالقدر رضوی (برطانیہ) کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ، کویت، مصر اور ایران کے اہل علم شامل تھے۔ ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ سید علی خامنہ ی کے نمائندے مہدی مہدوی پور کا پیغام بھی کانفرنس میں پڑھ کر سنایا گیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ حضرت علی کی زندگی میں علم کا پیغام جا بجا نظر آتا ہے۔پیغمبر اسلام نے حضرت علی کو شہر علم کے دروازے کے طور پر متعارف کرایا۔
اختتامی خطبہ دیتے ہوئے آیت اللہ عقیل الغروی نے کانفرنس کے کامیاب اہتمام پر مسرت کا اظہار کیا۔ انہوں نے موجودہ حالات کے پس منظر میں امام علی پر ہوئی اس کانفرنس کو بہت معنوی قرار دیا۔آیت اللہ عقیل الغروی نے اپنے خطاب میں اتحاد بین المسلمین کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت علی کی شخصیت صرف کسی ایک مسلک یا مذہب کا سرمایہ نہیں بلکہ تمام انسان ان کی زندگی اور تعلیمات سے اپنا اپنا حصہ پا سکتے ہیں۔آیت اللہ عقیل الغروی نے کہا کہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان تقریب یعنی اتحاد کی راہیں نکالنے پر زور دیا جانا چاہئے اور ان معاملات کو بلا وجہہ طول دینے سے بچنا چاہئے جن کی نوعیت فروعی ہے اور جو صرف اختلاف پیدا کرنے کے لئے اٹھائے جاتے ہیں۔
معروف دانشور، صحافی اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو جس انسانی بحران کا سامنا ہے اس سے نمٹنے کے لئے ان تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جنہیں ہم نے چھوڑ دیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے کہا کہ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام غریب انسانوں کا خون چوس رہا ہے ایسے میں ضرورت ان نظریات کو عام کرنے کی ہے جہاں انسانی ہمدردی بنیادی قدر ہے۔انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ مسلک اور مکتب فکر کے جھمیلے میں پڑنے کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان من حیث القوم تعلیم و ترقی کی طرف بڑھ چلیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کانفرنس سے یہ پیغام تو جانا ہی چاہئے کہ حضرت علی کی تعلیمات انسانوں کے لئے مشعل راہ ہیں لیکن اس سے یہ پیام بھی جانا ضروری ہے کہ اتحاد وقت کی سب سے ضرورت ہے۔
اختتامی اجلاس میں تنظیم المکاتب لکھنؤ کے سربراہ مولانا سید صفی حیدر، مولانا ڈاکٹر محمد سیادت نقوی، مولانا سید رضا حیدر، مولانا سید ظل مجتبیٰ عابدی پرنسپل جامعہ عالیہ جعفریہ نوگانواں سادات، مولانا سید قرۃ العین مجتبیٰ، مولانا فتح علی اور مولانا سید عبد اللہ حسینی سمیت متعدد دانشوروں اور علماء نے اپنے مقالات پیش کئے۔ کانفرنس کے تینوں دن جلسہ گاہ کھچاکھچ بھری رہی۔ شرکاء کی تعداد کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دو الگ الگ ہال میں متوازی اجلاس چلنے کے باجود دونوں میں ہی جگہ نہیں تھی اس لئے منتظمین کو باہر اسکرین لگاکر لوگوں کے لئے نشستوں کا انتظام کرنا پڑا۔
کانفرنس کے اخیر میں جن شعراء نے منظوم نذرانہ عقیدت پیش کیا ان میں شہزادہ گلریز (رامپور)، سرور نواب سرور (لکھنؤ)، کاظم جرولی (لکھنؤ)، پروفیسر عین الحسن (دہلی)، پروفیسر عزیز (بنارس)، آغا سروش (حیدر آباد)، منظر بھوپالی، وقار سلطان پوری اور عزا دار اعظمی شامل ہیں۔ اس کی نظامت احمد بجنوری نے کی۔
صدارت کے فرائض علامہ سید ذولفقار رضوی نے انجام دئے، جس میں انھوں نے کہا کہ دین اسلام، الہی تعلیمات کے مطابق وجود پایا ہے اور حضرت رسول اکرمکے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔ ہماری امت ایک امت ہے اور رسول اکرم بھی اتحاد کے پیغمبر تھے۔ حضرت امام علی اس کا عملی نمونہ تھے، ہمیں ان سے سبق لیتے ہوئے ان کے پیغام کو اپنی زندگی میں جاگزیں کرنا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔