ٹریکٹر پریڈ: بہت بڑی ہوگی لڑائی، گاؤں گاؤں میں ہے زبردست تیاری
بجنور کے نوجوان کسان لیڈر ادت چودھری بتاتے ہیں کہ حال کے دنوں میں بجنور کے کسانوں نے کئی یادگار تحریکیں چلائیں ہیں اور یہ (کسان تحریک) اب تک کی سب سے بڑی لڑائی ہے۔
بجنور سے دہلی کی طرف جانے والی قومی شاہراہ واقع گنگا بیراج پر گزشتہ 48 گھنٹوں سے ٹریفک سسکتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ کئی بار گھنٹوں ٹریفک بند رہا اور اب دھیرے دھیرے رینگتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ بجنور کا علاقہ دہلی میں یوم جمہوریہ پر ہونے والی کسانوں کی ٹریکٹر ریلی کے اعلان کے پیش نظر سرگرم نظر آنے والے اضلاع میں ایک ہے۔ اس کا اشارہ بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت دے چکے ہیں۔ بجنور سے کسان یونین کے ضلع سربراہ بشمبر سنگھ تین دنوں سے بجنور کے دیہات میں کسانوں کے ٹریکٹر کو دہلی بھیجنے میں مصروف ہیں۔ ان کا ایک پاؤں دہلی میں ہے اور دوسرا بجنور میں۔ بشمبر سنگھ کی مان لیں تو صرف بجنور سے ٹریکٹر ریلی میں ایک ہزار ٹریکٹر شامل ہوں گے۔ اب تک 500 ٹریکٹر دہلی روانہ ہو چکے ہیں۔ بجنور کی شراکت داری مغربی اتر پردیش میں سب سے اہم ہونے والی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بھارتیہ کسان مزدور یونین کی بنیاد بہت مضبوط ہے۔
بجنور کے نوجوان کسان لیڈر ادت چودھری بتاتے ہیں کہ حال کے دنوں میں بجنور کے کسانوں نے کئی یادگار تحریکیں چلائیں ہیں اور یہ (کسان تحریک) سب سے بڑی لڑائی ہے۔ تمام کسان تنظیموں نے آپسی نااتفاقی کو بھٹی میں جھونک دیا ہے اور متحد ہو گئے ہیں۔ ہم اپنے وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کسانوں کی جدوجہد کے لیے مظفر نگر، شاملی اور باغپت کی اپنی ایک شناخت ہے، لیکن اب بجنور اپنا دم دکھا رہا ہے۔ بجنور سے سینکڑوں ٹریکٹر دہلی پہنچ چکے ہیں اور اتنے ہی جانے والے ہیں۔
چاند پور کے 65 سالہ کسان نور محمد بتاتے ہیں کہ ان کا گھر مظفر نگر میں ہے لیکن ان کا فارم بجنور کے چاند پور میں ہے۔ وہ یہاں وہی جوش دیکھ رہے ہیں جو انھوں نے اپنے ضلع میں چودھری ٹکیت کے زمانے میں دیکھا تھا۔ لوگوں میں زبردست جنون دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بجنور سے 70 کلو میٹر دور بھارتیہ کسان یونین کی راجدھانی سسولی میں نریش ٹکیت بغل کے گاؤں سے لوٹے ہیں۔ نریش بھارتیہ کسان یونین کے قومی سربراہ ہیں۔ وہ آنجہانی چودھری مہندر سنگھ ٹکیت کے بڑے بیٹے ہیں اور غازی پور بارڈر پر کسانوں کی قیادت کر رہے راکیش ٹکیت کے بڑے بھائی ہیں۔ راکیش وہاں ڈٹے ہیں، تو نریش یہاں گاؤں گاؤں گھوم رہے ہیں اور کسانوں کو دہلی گھیرنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ نریش کہتے ہیں ’’یہ آر پار کی جنگ ہو گئی ہے۔ حکومت ہمیں اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ وزیر زراعت کو ہر بار بات کرنے بھیج دیتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم مودی پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ لیکن فرق پڑے گا، ضرور پڑے گا، حکومت کو یہ قانون واپس لینا ہی پڑے گا۔‘‘
نریش ٹکیت بالیان کھاپ کے بھی چودھری ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’لڑائی بالکل جائز ہے، یہ کسانوں کی لڑائی ہے۔ اگر یہاں سے کسان ناکام ہو جاتے ہیں تو وہ آگے کے لیے بہت برے دور میں پہنچ جائیں گے۔ کچھ لوگ پارٹی بازی کے سبب نہیں بول پا رہے ہیں۔ انھیں بھی بولنا ہوگا۔ ہم نے اس لڑائی کو چھیڑ دیا ہے، اب ہم اسے بغیر نتیجہ پر پہنچے چھوڑ نہیں سکتے ہیں۔‘‘
گنگا کے پار بجنور علاقہ سے آ رہے کسانوں کے ٹریکٹر قافلوں کو دہلی تک پہنچانے کے لیے تقریباً ہر اہم موڑ، تراہے، چوراہے پر کسان تنظیموں کے نوجوان کارکنان کھڑے رہتے ہیں۔ کھتولی تراہے پر کھڑے پراگ چودھری بتاتے ہیں کہ ’’ہم یہاں کسانوں کی مدد کے لیے ہیں۔ حکومت انھیں دہلی نہ پہنچنے دینے کے لیے تمام رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔ کسان بھائیوں کو ہم پانی اور چائے پلا رہے ہیں اور ان کی ہمت بڑھا رہے ہیں۔ اگر انتظامیہ کی جانب سے کوئی رکاوٹ ڈالتا ہے تو ہم اپنے لیڈروں کو مطلع کرتے ہیں۔‘‘
انتظامیہ کی جانب سے ہو رہی رکاوٹوں کا عالم یہ ہے کہ کئی جگہ پٹرول پمپوں نے ٹریکٹروں کو ڈیزل دینا بند کر دیا ہے۔ کئی جگہ نوٹس لگا دیئے گئے ہیں۔ سہارنپور کے گنگوہ کے کسان سدھیر بھارتیہ بتاتے ہیں کہ کسان کا ٹریکٹر ڈیزل سے خالی رہتا ہی نہیں ہے، اور ہم اتنا تیل تو رکھتے ہیں کہ دہلی پہنچ جائیں۔ اب دہلی پہنچ کر تیل ختم ہو گیا تو ٹریکٹر وہیں کھڑا کر دیں گے۔ سدھیر بتاتے ہیں کہ سہارنپور سے سینکڑوں ٹریکٹر دہلی پہنچ چکے ہیں اور یہ سب 26 جنوری کی پریڈ میں کرتب دکھائیں گے۔ شاملی، باغپت، میرٹھ سے بھی ہزاروں ٹریکٹر یوم جمہوریہ پر ٹریکٹر ریلی میں شرکت کریں گے۔ باغپت کے انل تیوتیا کہتے ہیں کہ ہم مقامی کسانوں سے اپیل کر رہے ہیں کہ یہ سیاسی طور پر بنٹوارا نہیں ہے، ہمیں کسان کے لیے متحد ہونے کا وقت ہے۔
کسانوں نے بھی دہلی پہنچنے سے روکے جانے پر ٹریکٹر کو راجدھانی تک پہنچانے کے نئے طریقے اختیار کیے ہیں۔ مثلاً کسان نصف رات کو پورا قافلہ لے کر نکلتے ہیں۔ بھارتیہ کسان یونین کے مغربی اتر پردیش کے سربراہ راجو اہلاوت مظفر نگر اور میرٹھ سے ٹریکٹر کو دہلی پہنچانے کا منصوبہ بنانے اور اس پر عمل درآمد کرنے کی اہم کڑی ہیں۔ راجو اہلاوت کہتے ہیں کہ ’’آج مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اسی دن کے لیے پیدا ہوئے۔ یہ ہماری زندگی کی سب سے بڑی جدوجہد ہے، کئی نقاب اتر گئے ہیں۔ آج جو کسان کے ساتھ نہیں ہے، کل کسان ان کے ساتھ نہیں رہے گا۔ بات وجود کی ہے اور بچوں کے مستقبل کی ہے۔ ہماری عورتوں نے بھی ذہن تیار کر لیا ہے کہ ہم اس لڑائی کو ادھوری نہیں چھوڑنے جا رہے ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔