مودی حکومت کے فیصلے سے کشمیر میں سیاحتی شعبے کو زبردست نقصان، بیشتر ہوٹل بَند یا خالی
وادیٔ کشمیر کے تمام مشہور سیاحتی مقامات بشمول گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ، یوسمرگ اور دودھ پتھری میں سیاحتی سرگرمیاں 5 اگست سے معطل ہیں۔
سری نگر: وادی کشمیر میں حکومت کی طرف سے 2 اگست کو جاری کی گئی ایڈوائزری اور 5 اگست کو لئے گئے فیصلوں سے پیدا شدہ صورتحال کے نتیجے میں یہاں کے سیاحتی شعبے کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ وادی کے تمام سیاحتی مقامات پر واقع ہوٹل بند یا خالی ہیں اور سری نگر میں سبھی ہاؤس بوٹ خالی ہیں۔ وہ افراد جن کی روزی روٹی سیاحتی شعبے پر منحصرہے، کو شدید مالی دشواریوں کا سامنا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی کے تمام مشہور سیاحتی مقامات بشمول گلمرگ، پہلگام، سونہ مرگ، یوسمرگ اور دودھ پتھری میں سیاحتی سرگرمیاں 5 اگست سے معطل ہیں۔ ان سیاحتی مقامات پر واقع سبھی ہوٹل اور دکانیں بند ہیں جبکہ ہوٹلوں میں کام کرنے والے ملازمین کی چھٹی کردی گئی ہے۔
گلمرگ کے ہوٹل مالکان کے ایک گروپ نے بتایا کہ ان کے ہوٹل 5 اگست سے بند ہیں اور انہیں اپنے 90 فیصد ملازمین کی چھٹی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’اس سال جولائی تک اچھی خاصی تعداد میں سیاحوں نے گلمرگ کا رخ کیا تھا۔ لیکن 2 اگست کو ایڈوائزری جاری ہونے کے ساتھ ہی گلمرگ خالی ہونا شروع ہوا اور 5 اگست تک مکمل طور پر خالی ہوچکا تھا۔ ہمارا کاروبار مکمل طور پر ٹھپ ہوچکا ہے، بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے‘۔
قابل ذکر ہے کہ 2 جولائی کو ریاستی حکومت کی طرف سے ایک ایڈوائزری جاری کی گئی جس میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات ہیں کہ امرناتھ یاترا کو حملے کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے لہٰذا وادی کشمیر میں موجود امرناتھ یاتری اور سیاح فوراً سے پیشتر کشمیر چھوڑ کر چلے جائیں۔ یہ ایڈوائزری جاری ہونے کے ساتھ ہی امرناتھ یاتری اور سیاح اپنا قیام مختصر کرکے وادی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ایڈوائزری جاری ہونے کے دو روز بعد مرکزی حکومت نے ریاست کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 ہٹائی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنانے کا اعلان کردیا۔
ادھر سری نگر میں شہرہ آفاق ڈل جھیل اور نزدیک میں واقع مغل باغات مسلسل سنسان نظر آرہے ہیں۔ سری نگر بالخصوص بلیوارڈ روڑ پر واقع سبھی ہوٹل اور ہاوس بوٹ خالی ہیں۔ اس کے علاوہ شکارے والے بھی ڈل کے کناروں پر آرام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
دریں اثنا کشمیر کی تجارتی انجمنوں کے مطابق وادی میں گزشتہ تین ہفتوں سے ہر طرح کی تجارتی سرگرمیاں ٹھپ ہیں اور کاروباری افراد بشمول سیاحتی شعبہ سے وابستہ افرادی کا بھاری نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مواصلاتی خدمات کی معطلی سے دیگر شعبوں بشمول باغبانی سے وابستہ افراد کا بھی بڑا نقصان ہونے کا قوی امکان ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Aug 2019, 11:10 PM