کالا دھن ختم کرنا ہے تو ٹیکس نظام کو آسان بنانا ہوگا، پارلیمانی کمیٹی کا مودی حکومت کو مشورہ

وزارت مالیات سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مودی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ کالے دھن کی لاعلاج بیماری پر قابو پانے کے لیے بے حد ضروری ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس نظام کو جلد آسان بنایا جائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اوما کانت لکھیڑا

ایسے نازک دور میں جب کہ مودی حکومت اپنی دوسری اننگ کے پہلے بجٹ کی زور و شور سے تیاری کر رہی ہے، اسے کالے دھن کا پتہ لگانے میں ناکامی کے بعد پارلیمانی کمیٹی سے انتہائی اہم صلاح ملی ہے۔ وزارت مالیات سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے مودی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ کالے دھن کی لاعلاج بیماری کو قابو کرنے کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ بلاواسطہ ٹیکس نظام کو جلد سے جلد آسان بنایا جائے۔ پارلیمنٹ میں پیر کے روز پیش کردہ اس رپورٹ میں کمیٹی نے مودی حکومت کے محکمہ خزانہ سے کہا ہے کہ وہ کالے دھن کے ذرائع کے بارے میں مزید احتیاط اور بیداری سے کام کریں۔

کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ و مرکزی وزیر رہے ویرپا موئلی کی صدارت والی اس کمیٹی میں راجیہ سبھا و لوک سبھا سے سبھی اہم پارٹیوں کے اراکین پارلیمنٹ کی نمائندگی تھی۔ کمیٹی نے کالے دھن کا پتہ لگانے کے لیے تشکیل ایس آئی ٹی کی ان 7 رپورٹوں پر آگے کارروائی کرنے کو کہا ہے جس کی تشکیل مرکزی وزیر کے محکمہ خزانہ نے کیا تھا۔ ان کے علاوہ 3 اور کمیٹیاں بے حساب کالے دھن کا پتہ لگانے کے لیے تشکیل کی گئی تھیں۔


مودی حکومت نے مئی 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کالے دھن کے معاملے میں سپریم کورٹ کے دو سابق ججوں کی صدارت میں ایس آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی۔ معلوم ہو کہ سپریم کورٹ نے بھی کالے دھن کے خاتمے کے لیے قانونی و انتظامی قدم اٹھانے کی مرکزی حکومت کو ہدایت دی تھی۔

پارلیمانی کمیٹی نے اعتراف کیا ہے کہ ملک کے اندر و بیرون ممالک میں ہندوستان کے کالے دھن کی حقیقی حالت کا اندازہ کرنا بہت ہی ٹیڑھا کام ہے۔ یو پی اے حکومت کے دور اقتدار یعنی 2010 میں بھی حکومت کو دو اہم اداروں نے اس بارے میں تجرباتی مسائل کے بارے میں مطلع کرایا تھا۔ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے جائزہ میں پایا کہ سب سے زیادہ کالا دھن رئیل اسٹیٹ، کانکنی، فارماسیوٹیکلز، پان مسالہ، گٹکا، تمباکو پروڈکٹ بازار، فلم انڈسٹری، تعلیمی اداروں و پیشہ ور کام میں لگے لوگوں کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ کنسٹرکشن و سیکورٹی مارکیٹ میں بھی کافی مقدار میں کالا دھن جمع ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔


معلوم ہو کہ یہ ابتدائی رپورٹ سابق لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کو مارچ 2019 میں سونپی گئی تھی، اس کے تین ماہ بعد تفصیلی رپورٹ سونپی جانی تھی۔ اس میں محکمہ خزانہ کے سامنے موصول سبھی دستاویزوں، ثبوتوں اور پیش قدمی کو کارروائی رپورٹ کے ساتھ پیش کیا جانا تھا۔ کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ جو بھی کالا دھن جمع ہو رہا ہے وہ سرکار کے ضابطوں و ٹیکس قانون کی خلاف ورزی کر کے کیا جاتا رہا ہے۔

اس کے علاوہ کئی طرح کی غیر قانونی اقتصادی سرگرمیاں، چوری کا مال فروخت کر، ڈرگس کا کاروبار، قحبہ گری، جوا، اسمگلنگ اور جعل سازی وغیرہ کی کارگزاریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی آمدنی جو کہیں ریکارڈ میں نہیں ہے، ٹیکس چوری، قانونی خدمات اور سامان بھی غیر قانونی یا کالے دھن کے جمع ہونے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ کمیٹی کا کہنا ہے کہ کالا دھن صرف غلط طریقے سے کمائی گئی آمدنی سے ہی جمع نہیں ہوتا، بلکہ کالے دھن پر مبنی جمع پونجی بھی اس کی سب سے بڑی وجہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔