دہلی میں 3 مسلم لڑکوں کی مشتبہ حالات میں موت، اہل خانہ کو پولس پر شبہ!

متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ تینوں شادی کی تقریب سے واپس آ رہے تھے تو ان کی اسکوٹی کو پولس کی گشتی گاڑی نے تعاقب کیا، لہذا اس معاملہ میں پولس کا کردار مشکوک ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: وسطی دہلی ضلع کے تحت نیتاجی سبھاش مارگ کے قریب دہلی گیٹ چوراہے پر ہفتہ کی رات تین نو عمر مسلم لڑکوں کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد سنسنی پھیلی ہوئی ہے۔ تینوں کے نام سعد، حمزہ اور اسامہ ہیں، وہ آپس میں رشتے دار تھے اور ایک شادی تقریب سے اسکوٹی پر سوار ہو کر لوٹ رہے تھے۔

علاقائی پولس کا دعویٰ ہے کہ یہ سڑک حادثہ ہے۔ جبکہ متاثرہ خاندانوں نے پولس پر ہی شک ظاہر کیا ہے۔ کنبہ کے افراد کا کہنا ہے کہ تینوں کی موت اس وقت ہوئی جب وہ شادی کی تقریب سے واپس آرہے تھے۔ اسی دوران ان کی اسکوٹی کا دہلی پولس کی ایک گشتی گاڑی نے تعاقب کرنا شروع کر دیا۔ ہلاک ہونے والے تینوں لڑکوں کی عمریں 16 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔


اے آئی این ایس کی رپورٹ کے مطابق، سعد کے والد نے واضح طور پر کہا کہ یہ حادثہ نہیں ہے بلکہ قتل ہے اور اس قتل کے لئے وسطی دہلی ضلع کی پولس ذمہ دار ہے، جس کی گشتی پارٹی لڑکوں کی اسکوٹی کا تعاقب کر رہی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر پولس لڑکوں کا تعاقب نہیں کر رہی ہوتی تو ان کے بچے آج صحیح سلامت ہوتے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ رکشہ والوں نے ان کے بچوں کو اسپتال پہنچایا۔

ادھر، رات میں پیش ہونے واقعہ کی معلومات گھنٹوں تک میڈیا کو نہیں دینے والے سینٹرل دہلی کے ڈی سی پی اور دہلی پولس کے ترجمان مندیپ سنگھ رندھاوا نے اتوار کے روز صبح ساڑھے گیارہ بجے واٹس ایپ گروپ پر پیغام بھیج کر بتایا کہ وہ دن کے ڈیڑھ بجے اس واقع کی معلومات میڈیا کو دیں گے۔


سعد کے والد نے الزام لگایا، ’’اگر سینٹرل ڈسٹرکٹ پولس ایماندار ہے تو وہ اس واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کیوں چھپا رہی ہے؟ سی سی ٹی وی فوٹیج میں میں نظر آ جائے گا کہ پولس والے اسکوٹی کا تعاقب کر رہے تھے یا نہیں!‘‘

جائے وقوع پر موجود عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس کے مطابق، ’’واقعہ کے بعد ڈی سی پی مندیپ سنگھ رندھاوا مع فورس موقع پر پہنچ گئے تھے۔‘‘ ایسے حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب خود ڈی سی پی موقع پر تھے تو اتنے بڑے حادثے کی سی سی ٹی وی فوٹیج پولس آخر کس سازش کے تحت عام کرنے سے ڈر رہی ہے!‘‘


دوسرا سوال یہ ہے کہ رات کے وقت پیش آنے والے اس واقعہ کے بارے میں جائز معلومات دہلی پولس کے ترجمان اور وسطی ضلع کے ڈی سی پی مندیپ سنگھ رندھاوا نے میڈیا سے کیوں پوشیدہ رکھی؟ اگر تینوں لڑکوں کی ہلاکت میں پولس کا کردار مشکوک نہیں ہے تو پولس نے اتنا سرد رویہ کیوں اختیار کیا۔ جبکہ کسی چور اچکے کو پکڑ لینے کے بعد دہلی پولس کے پی آر او سیکشن میں ہنگامہ برپا رہتا ہے۔

آئی اے این ایس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چونکہ پولس نے کوئی جائز معلومات میڈیا کو فراہم نہ کر کے اس واقعہ کو گھنٹوں تک پوشیدہ رکھا، تو ایسی صورتحال میں متاثرہ خاندانوں کے الزامات کو یکسر مسترد کر پانا ناممکن ہے اور کہیں نہ کہیں پولس کا کردار مشکوک ضرور ہے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Dec 2019, 4:11 PM