ہلدوانی میں 50 ہزار افراد پر بے گھر ہونے کا خطرہ! ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف آج سماعت کرے گا سپریم کورٹ

ہائی کورٹ کے حکم کے بعد اخبارات میں نوٹس جاری کیے گئے تھے، جن میں لوگوں کو 9 جنوری تک اپنے گھر کا سامان ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے

<div class="paragraphs"><p>ہلدوانی میں احتجاج کرتی خواتین / آئی اے این ایس</p></div>

ہلدوانی میں احتجاج کرتی خواتین / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ہلدوانی: سپریم کورٹ جمعرات یعنی آج ہلدوانی میں ریلوے کی 78 ایکڑ اراضی سے 4365 خاندانوں کو بے دخل کرنے کے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرنے والی عرضی پر سماعت کرے گا۔ سینئر وکیل پرشانت بھوشن سپریم کورٹ میں عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوں گے۔ خیال رہے کہ اس علاقے کے تقریباً 50000 مکینوں، جن میں سے 90 فیصد مسلمان ہیں، پر بے گھر ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔

مقامی باشندوں کے مطابق 78 ایکڑ کے علاقے میں 5 وارڈ ہیں اور تقریباً 25000 ووٹرز ہیں۔ بزرگ، حاملہ خواتین اور بچوں کی تعداد 15000 کے قریب ہے۔ 20 دسمبر کے ہائی کورٹ کے حکم کے بعد اخبارات میں نوٹس جاری کیے گئے تھے، جن میں لوگوں کو 9 جنوری تک اپنے گھریلو سامان کو ہٹانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے 10 اے ڈی ایم اور 30 ​​ایس ڈی ایم رینک کے افسران کو اس عمل کی نگرانی کرنے کی ہدایت دی ہے۔


بہت سے خاندان 1910 سے بانبھول پورہ میں غفور بستی، ڈھولک بستی اور اندرا نگر کالونیوں کے ’مقبوضہ علاقوں‘ میں رہ رہے ہیں۔ اس علاقے میں چار سرکاری اسکول، 10 پرائیویٹ اسکول، ایک بینک، چار مندر، دو مقبرے، ایک قبرستان اور 10 مساجد ہیں، جو گزشتہ چند دہائیوں میں تعمیر کی گئی ہیں۔ بانبھول پورہ میں ایک کمیونٹی ہیلتھ سنٹر اور ایک سرکاری پرائمری اسکول بھی ہے جو 100 سال سے زیادہ پرانا بتایا جاتا ہے۔

یہاں کے مکینوں کے ذہنوں میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اس علاقے میں بغیر اجازت کے اسپتال اور اسکول کیسے بنائے جا سکتے ہیں۔ عابد شاہ خان، جو 60 سال سے زیادہ عرصے سے وہاں مقیم ہیں، نے ٹائمز آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ریلوے اچانک ہمیں جانے کے لیے کیسے کہہ سکتا ہے؟ ہمیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ ہم نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور ہمیں انصاف ملنے کی پوری امید ہے۔‘‘


اڑتیس سالہ جنید خان نے بتایا کہ ان کی اہلیہ مشکل سے حاملہ ہوئی ہے اور بچے کی پیدائش کے لئے 7 جنوری کی تاریخ بتائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ ہماری مدد کے لیے نہیں آتا، تو میری 85 سالہ والدہ سمیت ہمارے پورے خاندان کو منتقل کرنا ایک ناقابل تصور صورتحال ہوگی۔‘‘ کلاس 6 کی طالبہ فاطمہ نے ٹائمز آف انڈیا کو بتایا ’’تقریباً 10000 خواتین نے منگل کو ایک ساتھ دعا کی۔ ہمارے امتحانات اگلے چند ہفتوں میں ہونے والے ہیں۔ ہم خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔‘‘

عرضی گزاروں میں سے کچھ نے نشاندہی کی کہ 2018 میں حکمراں بی جے پی نے ’کچی آبادیوں‘ کو مسمار کرنے کو روکنے کے لیے ایک آرڈیننس منظور کیا تھا اور مکینوں کو بے دخل کرنے کے بجائے کچی آبادیوں کو ریگولرائز کرنے یا کم از کم مکینوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اتراکھنڈ میں 582 کچی آبادیوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جن میں سے 22 ہلدوانی میں ہیں اور 5 مبینہ طور پر تجاوز شدہ ریلوے زمین پر ہیں۔


ایک مقامی نے کہا ’’آرڈیننس ان کچی بستیوں کے مکینوں کو بے دخلی سے بچاتا ہے، چاہے معاملہ عدالت میں ہو۔ تاہم، ریاستی حکومت نے ہمیں صرف اس لیے بے دخل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کہ ہم اقلیتی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔‘‘ اس معاملے پر وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے کہا کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی ریاست اس پر عمل کرے گی۔ انہوں نے کہا ’’ہم عدالت کے فیصلے کا احترام کریں گے۔ ریاستی حکومت اس معاملے میں فریق نہیں ہے۔ یہ معاملہ ریلوے اور ہائی کورٹ کے درمیان ہے۔‘‘

کانگریس کے سابق ریاستی سربراہ اور اپوزیشن کے سابق لیڈر پریتم سنگھ نے پارٹی کے دیگر ارکان کے ساتھ منگل کو وزیر اعلیٰ سے ملاقات کی۔ انہوں نے بے دخلی کا سامنا کرنے والے خاندانوں کی مدد کے لیے ان سے مداخلت کی درخواست کی۔ بدھ کے روز سابق وزیر اعلی اور سینئر کانگریس لیڈر ہریش راوت نے بھی رہائشیوں کی حمایت میں ایک گھنٹہ تک خاموشی اختیار کی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔