غیر موثر طلاق ثلاثہ کیخلاف قانون سازی کا حکومت پر کوئی دباو نہیں تھا: مجید میمن

مجید میمن نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے جس فیصلے کی دہائی دے رہی ہے وہ اقلیتی فیصلہ تھا۔ البتہ اکثریت سے کئے جانے والےعدالت عظمی کے فیصلے میں تو طلاق ثلاثہ کو موثر حالت میں چھوڑا ہی نہیں گیا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: راجیہ سبھا کے رکن اور فوجداری قانون کے ماہر مجید میمن نے کہا کہ طلاق ثلاثہ کے تعلق سے کسی طرح کی قانون سازی کے لئے مرکزی حکومت پرسپریم کورٹ کی طرف سے کوئی دباونہیں ڈالا گیا۔

ایک اخباری ملاقات میں میمن نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ کے جس فیصلے کی دہائی دے رہی ہے وہ اقلیتی فیصلہ تھا۔ البتہ اکثریت سے کئے جانے والےعدالت عظمی کے فیصلے میں تو طلاق ثلاثہ کو موثر حالت میں چھوڑاہی نہیں گیا۔

انہوں نے کہا کہ اکثریت والا عدالتی فیصلہ عملاً آرٹیکل 141 کی رو سے قانون کا درجہ حاصل کر لیتا ہے جس کا ہر کسی کو پابند ہونا چاہئے۔اس طور سے حکومت پر لازم ہے کہ وہ مزید کسی قسم کی قانون سازی میں الجھنے یا پڑنے کے بجائے آرٹیکل 142 کے تحت قدم اٹھائے یعنی سپریم کورٹ کے قانون کو نافذ کرے۔

میمن کے مطابق 22 اگست 2017 کو سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا اس کے بعد سے طلاق ثلاثہ اپنا وجود ہی نہیں رکھتی اور جو چیز وجود ہی نہیں رکھتی اُسےجرم ٹھہرانے کے لئے مسلم خواتین کے تحفظ کے نام پر کسی طرح کا بل لانے کی مطلق کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔

میمن نے استدلال کیا کہ راجیہ سبھا میں سابقہ موقع پر منظور ی کے مرحلے سے گزرنے میں ناکامی کے بعد ایک بار پھر نزاع کی شکل اختیار کر لینے والا یہ بل مبنی بر بدنیتی ہے ورنہ کیا وجہ ہے ماب لنچنگ کا شکار ہونے والوں کی بیواوں، ماوں، بہنوں اور بیٹیوں سے کوئی سرگرم عملی ہمدردی نہیں دکھائی گئی۔

ایک سوال کے جواب میں میمن نے کہا کہ 22 اگست 2017 کے بعد سے طلاق بدعت کے جن 477 واقعات کی حکومت دہائی دیتے نہیں تھک رہی ہے وہ طلاقیں عملاً واقع ہی نہیں ہوئیں۔ اور ان 477 واقعات کے تعلق سے بھی ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متعلقہ زن و شو کو یہ بتایا جاتا کہ چونکہ ان میں طلاقیں ہوئی ہی نہیں لہذا اُن کے مابین حقوق زوجیت بدستور غیر متاثر ہیں۔

انہوں نے حکومت کے اس موقف کو بھی کہ سپریم کورٹ نے طلاق بدعت کے ظلم کا شکار ہونے والی عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے ، دو لحاظ سے غلط ٹھہرایا ۔ اول یہ کہ جب طلاق ہوئی ہی نہیں تو پھر بیوی پر ظلم کہاں ہوا اور کسی غیر مظلومہ کی مدد کیسی؟ دوئم یہ کہ سپریم کورٹ کا اقلیتی فیصلہ کوئی قانونی مینڈیٹ نہیں۔

ایک دوسرے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مرکزی وزیر قانون نے بل کو سیلیکٹ کمیٹی کے سپرد کرنے کی سرکاری مخالفت کا ایک بھی معقول جواز نہیں بتایا۔ یہ کہنا کہ اس طرح تاخیر ہوگی عذرلنگ ہے کیونکہ اسے سیلیکٹ کمیٹی کے حوالے کرنے کی پہلی مانگ 3 جنوری 2018 کی کو گئی تھی ۔ ایک سال تک معاملے کو دباکر رکھنے اور موقع ملتے ہی اسے انتخابی حربے میں بدل دینے کے لئے کیا حکومت نے از خود تاخیر سے کام نہیں لیا؟ حالات کا تقاضہ ہے کہ اس بل کو مشترکہ سیلکٹ کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔