جنتا دل یو میں کبھی فٹ ثابت نہیں ہوئے ’پی کے‘، ہمیشہ اٹھی نااتفاقی کی آواز
جنتا دل یو لیڈر کا کہنا ہے کہ پرشانت کشور کو جس طرح پارٹی میں نتیش کمار کے بعد دوسرے نمبر کا لیڈر بنایا گیا تھا، اس سے کئی لیڈروں میں نہ صرف نااتفاقی تھی بلکہ کئی لیڈران فکرمند بھی نظر آئے تھے۔
بہار میں برسراقتدار جنتا دل یو نے پرشانت کشور کو آخر کار پارٹی سے نکال دیا۔ اب تو کہا جانے لگا ہے کہ پرشانت کشور عرف پی کے بھلے ہی انتخابی پالیسی بنانے اور انتخاب کے لیے نعرہ تیار کرنے میں بھلے ہی کامیاب ہوئے ہوں، لیکن سیاست اور خصوصاً جے ڈی یو کے لیے شروع سے ہی وہ ’فٹ‘ نظر نہیں آئے۔ جنتا دل یو کے ایک لیڈر بھی مانتے ہیں کہ ’’پرشانت کشور کو جس طرح پارٹی میں نتیش کمار کے بعد دوسرے نمبر کے لیڈر کی شکل میں پارٹی میں شامل کیا گیا تھا، اس سے کئی لیڈروں میں نہ صرف نااتفاقی ابھر کر سامنے آئی تھی بلکہ کئی لیڈروں کو فکر میں مبتلا کر دیا تھا۔‘‘
ایک جنتا دل یو لیڈر کا کہنا ہے کہ سال 2018 میں پرشانت کشور کے پارٹی میں شامل کرنے کے بعد وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی جس طرح پرشانت کشور کی تعریف کر رہے تھے، اس سے پارٹی میں پرشانت کو دوسرے نمبر کے لیڈر کی شکل میں دیکھا جانے لگا تھا۔ کئی لیڈر خود کو ’سائیڈ لائن‘ محسوس کرنے لگے تھے۔ کچھ ذرائع کے حوالے سے خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ پرشانت کشور کے بڑھتے سیاسی قد سے آر سی پی سنگھ اور کبھی نتیش کمار کے دایاں ہاتھ مانے جانے والے للن سنگھ جیسے لیڈر پریشان ہو گئے تھے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسی حالت میں پرشانت کشور جے ڈی یو میں دیگر لیڈروں سے بھی کٹتے چلے گئے۔
پٹنہ کے سینئر صحافی اور سیاسی ماہر سنتوش سنگھ کا پرشانت کشور کے تعلق سے کہنا ہے کہ سیاسی پس منظر اور پالیسی ساز ہونا، ان دونوں میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جنتا دل یو میں جو سینئر لیڈر خود کو سائیڈ لائن مان رہے تھے، وہی بعد میں پرشانت کشور کو سائیڈ لائن کرنے لگے۔ ایسے لیڈروں کی جنتا دل یو میں اکثریت تھی اس لیے پرشانت تنہا پڑتے چلے گئے اور ان کی اہمیت کم ہوتی چلی گئی۔
سنتو سنگھ کا ویسے یہ بھی کہنا ہے کہ پرشانت کشور کو اس کے بعد یوتھ جنتا دل یو کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن اس میں بھی وہ کامیاب ہوتے نظر نہیں آ رہے تھے۔ وہاں بھی وہ فٹ نہیں بیٹھے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نتیش کمار کے بعد پرشانت کشور کے گھر بھی لیڈروں کی بھیڑ لگنے لگی تھی۔ اس درمیان آر سی پی سنگھ اور للن سنگھ میں نزدیکی بڑھی۔ آر سی پی کی نزدیکی بی جے پی سے بھی بڑھنے لگی تھی۔ اس کے بعد پرشانت کشور آر جے ڈی سے اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد پھر سے انتخاب میں جانے کی صلاح دیتے ہوئے ٹوئٹ کر دیا۔ اس ٹوئٹ نے پرشانت کشور کو جنتا دل یو میں پوری طرح الگ تھلگ کر دیا۔
سیاسی ماہر منوج چورسیا کا اس پورے معاملے میں کہنا ہے کہ پرشانت کشور پارتی کے صدر نتیش کمار کے قریبی ضرور بن گئے تھے لیکن پارٹی کے کارکنان اور عوام میں ان کی مقبولیت کبھی نہیں ہو پائی تھی۔ ایسی حالت میں کسی سیاسی پارٹی میں یا سیاست میں طویل مدت تک آگے بڑھنا آسان نہیں تھا۔ پرشانت کشور کے ساتھ یہی ہوا۔
غور طلب ہے کہ جنتا دل یو نے ڈسپلن شکنی کے الزام میں پرشانت کشور کو پارٹی سے باہر کا راستہ دکھایا ہے۔ بہر حال، اب دیکھنے والی بات ہوگی کہ اس سے پرشانت کشور کی سیاسی پاری کا خاتمہ ہو جائے گا یا وہ کسی دوسری پارٹی میں شامل ہو کر ایک بار پھر سے اپنی سیاسی پاری شروع کریں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔