سہارنپور: گنّے کا بقایہ اور بے روزگاری کی مار میں دفن ہو چکی ہے مودی لہر...گراؤنڈ رپورٹ

سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کے بعد یہ احساس ہوا کہ مودی لہر پوری طرح غائب ہے اور پلوامہ و بالاکوٹ جیسے ایشوز مقامی لوگوں کے بنیادی مسائل کے نیچے دفن ہو گئے ہیں۔

قومی آواز گرافکس / عمران خان
قومی آواز گرافکس / عمران خان
user

سید خرم رضا

گووردھن بھوجنالیہ پر ہماری ٹیم نے یہ فیصلہ لیا کہ مظفر نگر میں لوگوں سے ملاقات کرنے سے پہلے ہمیں سہارنپور کے رائے دہندگان کی نبض ٹٹولنی چاہیے۔ سہارنپور روانہ ہونے سے پہلے ہم نے وہاں کے امیدواروں سے بات کرنا مناسب سمجھا اس کے لئے سب سے پہلے کانگریس کے امیدوار عمران مسعود سے بات ہوئی تو انہوں نے ہم سے کہا کہ سہارنپور پارلیمانی حلقہ میں ایک گوجروں کی آبادی والا چھوٹا سا گاؤں ’بھانکلہ‘ ہے جہاں ان کا ایک انتخابی جلسہ ہے۔ ہم نے سوچا یہ موقع اچھا ہے وہاں موجود لوگوں کے ذہن کو سمجھنے کا بھی موقع ملے گا۔

جب ہم بھانکلہ گاؤں پہنچے تو وہاں عمران مسعود جلسہ سے خطاب کر رہے تھے۔ جوشیلے انداز میں اپنی بات رکھتے ہوئے انہوں نے بغیر لاگ لپیٹ کے کہا ’’آج آپ سب میری حمایت کی بات کر رہے ہیں اور خوب تعریف کر رہے ہیں لیکن ووٹنگ سے 24 گھنٹے پہلے کیا ہوگا اور آپ کس کو ووٹ دو گے اس کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا‘‘۔ اس جلسہ کا اہتمام گوجر رہنما نوین چودھری نے کیا تھا جو عمران مسعود کے خلاف پہلے الیکشن لڑ چکے ہیں اور ہارنے کے بعد کانگریس میں شامل ہو گئے تھے۔ نوین چودھری کیا سہارنپور پارلیمانی حلقہ کا کوئی بھی سیاسی رہنما ایسا نہیں ہے کہ وہ عمران مسعود کو نظر انداز کرے، کیونکہ وہ عوام میں بہت مقبول ہیں۔ ان کے بارے میں ان کے دشمنوں کی بھی یہ رائے ہے کہ وہ بلاتفریق ذات و مذہب لوگوں کا کام کرتے ہیں۔ ان کے بارے میں یہ عام تاثر ہے کہ اگر کوئی ان کو فون پر بھی اپنی پریشانی بتا دے تو جب تک اس کی وہ پریشانی دور نہ ہو جائے وہ چین سے نہیں بیٹھتے۔

سہارنپور پارلیمانی حلقہ کے ایک بزرگ شہری غالب مذاق مذاق میں بہت ہی سنجیدہ خیالات کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے، بی ایس پی سے تعلق رکھنے والے اتحاد کے امیدوار فضل الرحمان کی حمایت کرنے والے غالب کہتے ہیں ’’عمران سے بڑھیا رہنما کوئی نہیں ہو سکتا، سب کے کام کرتا ہے، بہت مقبول ہے مگر اچھے لوگوں کی سیاست میں کہاں جگہ ہے‘‘۔

سہارنپور پارلیمانی حلقہ میں ایک گاؤں کا نام ’نیا گاؤں رام نگر‘ ہے جہاں دلتوں کی بڑی آبادی ہے اور چندر شیکھر کی بھیم آرمی کے لوگ بڑی تعداد میں رہتے ہیں، یہاں کے ایک مقامی فیاض کہتے ہیں ’’گزشتہ پانچ سالوں میں ایک چیز کے علاوہ ہر چیز نیچے آئی ہے اور وہ ہے آپسی نفرت۔ صرف نفرت ایک ایسی چیز ہے جو گزشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ بڑھی ہے۔ نفرت کی کھائی میں بہت اضافہ ہوا ہے اور اس کو پاٹنے کی اشد ضرورت ہے‘‘۔ نیا گاؤں رام نگر کے دلت جہاں مودی سے بہت ناراض ہیں وہیں نوجوان بے روزگاری کو لے بہت پریشان ہیں۔

سہارنپور پارلیمانی حلقہ میں کل 17 لاکھ ووٹر ہیں جن میں سب سے زیادہ 38.6 فیصد مسلمان ہیں جبکہ سکھ اور عیسائی ملا کر اقلیتوں کی آبادی 40 فیصد ہے۔ دلتوں کی آبادی 24 فیصد ہے جس میں سب سے زیادہ جاٹو سماج 20 فیصد ہیں، بالمیکی 3 فیصد اور دیگر ایک فیصد ہیں۔ دیگر پسماندہ ذاتوں کی آبادی 20 فیصد ہے جس میں پانچ فیصد گوجر ہیں، دو فیصد جاٹ ہیں اور ایک فیصد یادو ہیں، باقی دیگر ذاتیں ہیں۔ اعلی ذات کی آبادی کل 14 فیصد ہے جس میں 6 فیصد ٹھاکر، 4 فیصد براہمن، 3 فیصد ویشیا اور باقی دیگر اعلی ذات کی آبادی ہے۔ اس حلقہ میں بنیادی طور پر زراعت ہی مرکزی مشغلہ ہے جبکہ لکڑی اور کپڑے کی صنعت کے لئے بھی سہارنپور بہت مشہور ہے۔

اس دوسرے پڑاؤ میں سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کے بعد یہ احساس ہوا کہ مودی لہر پوری طرح غائب ہے اور پلوامہ و بالاکوٹ جیسے ایشوز مقامی لوگوں کے بنیادی مسائل کے نیچے پوری طرح دفن ہو گئے ہیں۔ اس پارلیمانی حلقہ کے لوگ گنّے کی قیمت پر بات کرنا چاہتے ہیں، گائے کی حفاظت کے نام پر ان کی جو فصل تباہ ہو رہی ہے اس خوف پر بات کرنا چاہتے ہیں، نوجوانوں کی بے روزگاری پر بات کرنا چاہتے ہیں، نوٹ بندی سے ہوئی پریشانی پر بات کرنا چاہتے ہیں اور وہ اپنے مسائل کے علاوہ کسی بھی ایشو پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ ہمیں اپنے دورہ کے دوران یہ واضح نظر آیا کہ بی جے پی سے نارضگی ہے اور مودی کی کوئی لہر نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Mar 2019, 8:10 PM