راجستھان حکومت پر کوئی خطرہ نہیں، جادوئی نمبر سے زیادہ اراکین اسمبلی گہلوت کے ساتھ
وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کی میٹنگ میں 107 اراکین اسمبلی شامل ہوئے جس سے ظاہر ہے کہ حکومت بچانے کے لیے ضروری 101 ایم ایل اے سے کہیں زیادہ کا ساتھ گہلوت کو حاصل ہے۔
راجستھان میں پیدا سیاسی ہلچل کے درمیان گہلوت حکومت پر فی الحال کوئی خطرہ نظر نہیں آ رہا ہے۔ سچن پائلٹ کی ناراضگی کے بعد ایسا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ کانگریس کے لیے ریاست میں پریشانیاں کھڑی ہو سکتی ہیں، لیکن وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کے ذریعہ طلب کی میٹنگ میں 107 اراکین اسمبلی شامل ہوئے جس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت بچانے کے لیے ضروری 101 ایم ایل اے سے کہیں زیادہ کا ساتھ گہلوت کو حاصل ہے۔ اس میٹنگ میں سچن پائلٹ اور ان کے حامی اراکین اسمبلی شامل نہیں ہوئے تھے، لیکن ان کی ناراضگی دور کرنے کے لیے گفت و شنید کا عمل جاری ہے۔
دراصل 200 رکنی راجستھان اسمبلی میں اکثریت کے لیے 101 اراکین کی ضرورت ہوتی ہے اور اس وقت اشوک گہلوت کے پاس مکمل اکثریت دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کی رہائش پر جے پور میں ہوئی کانگریس قانون ساز پارٹی (سی ایل پی) میٹنگ کے دوران وزیر اعلیٰ گہلوت، رندیپ سنگھ سرجے والا، اجے ماکن اور دیگر کانگریس لیڈران میٹنگ سے قبل وِکٹری کا نشان دکھاتے ہوئے نظر آئے۔ اس دوران اشوک گہلوت میں بھی کافی مطمئن دکھائی دے رہے تھے۔ میٹنگ ختم ہونے کے بعد وہاں موجود سبھی ایم ایل اے کے چہرے پر بھی اطمینان نظر آ رہا تھا اور ایک ایم ایل اے نے میڈیا کے سامنے 'آل اِز ویل' بھی کہا۔
اس سے قبل کانگریس کے قومی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے واضح لفظوں میں میڈیا کے سامنے کہا کہ پائلٹ سمیت سبھی ناراض ایم ایل اے کے لیے کانگریس کے دروازے کھلے ہیں اور بات چیت کے ذریعہ ہر مسئلہ کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ سرجے والا نے کہا کہ "سچن پائلٹ سے متعدد بار بات چیت ہوئی ہے۔ ان کے لیے پارٹی کے دروازے کھلے ہیں۔ کسی کے ساتھ نظریاتی اختلافات ہوسکتے ہیں ، لیکن منتخب حکومت کو کمزور کرنا اور بی جے پی کو ہارس ٹریڈنگ کا موقع دینا غلط ہے۔"
رندیپ سرجے والا نے مزید کہا کہ "حکومت نے کورونا کی جنگ لڑی ہے، ہر شعبے میں ترقی کی ہے۔ ریاستی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، اسے مکمل اکثریت حاصل ہے۔" کانگریس کی داخلی کشمکش کے تعلق سے پارٹی ترجمان نے کہا کہ "جہاں برتن ہوتے ہیں وہ کھڑکتے ہی ہیں۔" اس درمیان سرجے والا نے کانگریس لیدڑوں کے خلاف انکم ٹیکس کی کارروائی پر بھی رد عمل ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ "انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور سنٹرل انویسٹی گیشن بی جے پی کی ہی اضافی تنظیمیں ہیں، اب انکم ٹیکس محکمہ بھی اس میں شامل ہوگیا ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Jul 2020, 4:11 PM