فحش ویڈیو بنانے اور شیئر کرنے والے نابالغ لڑکے کی ضمانت منظور کرنے سے سپریم کورٹ کا انکار، متاثرہ نے کر لی تھی خودکشی
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے سماجی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ بچہ بری صحبت میں پڑ گیا ہے اور اگر اسے رہا کر دیا گیا تو اس کے ساتھ مزید ناخوشگوار واقعات رونما ہو سکتے ہیں
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے منگل کو اتراکھنڈ کے ایک لڑکے کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا جس پر اپنی ہم جماعت کی فحش ویڈیو بنانے اور پھر اسے پھیلانے کا الزام ہے، جس سے دلبرداشتہ ہو کر نوجوان لڑکی کی خودکشی کر لی تھی۔ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ پونے ہٹ اینڈ رن کیس کے درمیان آیا ہے، جہاں جووینائل جسٹس بورڈ نے ایک نابالغ لڑکے کو ضمانت دی تھی جس نے اپنی کار سے بائیک پر سوار دو نوجوان سافٹ ویئر انجینئروں (لڑکا اور لڑکی) کو ٹکر ماری تھی، جس کے نتیجے میں ان کی موت ہو گئی تھی۔
جسٹس بیلا ایم ترویدی اور پنکج مٹھل کی تعطیلاتی بنچ نے اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا، جس نے اس کیس میں لڑکے کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہریدوار جووینائل جسٹس بورڈ (جے جے بی) اور اتراکھنڈ ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد لڑکے کی ماں نے راحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ لڑکے پر آئی پی سی کی دفعہ 305 اور 509 اور پوکسو ایکٹ کی دفعہ 13 اور 14 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سینئر وکیل لوک پال سنگھ نے سپریم کورٹ میں دلیل دی تھی کہ بچے کے والدین اس کی دیکھ بھال کے لیے تیار ہیں۔ اسے جوینائل ہوم میں بھیجنے کے بجائے اس کی تحویل اس کی ماں کو دی جانی چاہیے۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا، ’’ریکارڈ پر رکھے گئے مواد کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس مرحلے پر ہم ہائی کورٹ کے حکم میں مداخلت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘ خیال رہے کہ لڑکی گزشتہ سال 22 اکتوبر کو اپنی رہائش گاہ سے لاپتہ ہو گئی تھی اور بعد میں اس کی لاش برآمد ہوئی تھی۔
اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے لڑکے کو 'غیر نظم و ضبط والا' قرار دیتے ہوئے اسے ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جج جسٹس رویندر میتھانی نے یکم اپریل کو اپنے فیصلے میں کہا تھا، ’’قانون سے متصادم بچے کے لیے ہر جرم قابل ضمانت ہے اور وہ سی آئی ایل (چائلڈ ان کانفلکٹ وتھ لا) ضمانت کا حقدار ہے، قطع نظر اس کے کہ یہ جرم قابل ضمانت ہے یا غیر قابل ضمانت۔ مزید یہ کہ اگر یہ ماننے کے لیے معقول بنیادیں موجود ہوں کہ رہائی سے بچہ قانون سے متصادم مجرم کی صحبت میں جا سکتا ہے، اسے اخلاقی، جسمانی یا نفسیاتی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے یا اس کی رہائی سے انصاف کی فراہمی میں مشکل ہو سکت ہے، تو اس کی ضمانت مسترد ہو سکتی ہے۔
ہائی کورٹ نے لڑکے کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا، 'سماجی تحقیقاتی رپورٹ، میڈیکل انویسٹی گیشن رپورٹ، اسکول کی رپورٹ پر غور کرنے کے بعد عدالت کا خیال ہے کہ بچے کو ضمانت نہیں دیا جانا اس کے مفاد میں ہے۔ اگر اسے ضمانت پر رہا کیا جاتا ہے تو یہ یقینی طور پر انصاف کی شکست ہوگی۔‘‘ سماجی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ وہ ایک غیر نظم و ضبط والا بچہ ہے جو بری صحبت میں پڑ گیا ہے۔ اسے سخت نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ اگر اسے رہا کر دیا گیا تو اس کے ساتھ مزید ناخوشگوار واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔