سپریم کورٹ نے ’جلی کٹو‘ کی اجازت دینے والے قانون کے جواز کو برقرار رکھا، جانیں کیا تھا تنازعہ؟

رپورٹ کے مطابق جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ وہ مقننہ کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ مقننہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ریاست کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>جلی کٹو / Getty Images</p></div>

جلی کٹو / Getty Images

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز ایک معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے ’جلی کٹو‘ کے کھیل کو اجازت دینے والے قانون کے جواز کو برقرار رکھا ہے۔ مہاراشٹرا اور کرناٹک حکومتوں کی طرف سے بنائے گئے اسی طرح کے قوانین کو بھی سپریم کورٹ نے جائز قرار دیا۔

رپورٹ کے مطابق جسٹس کے ایم جوزف کی سربراہی میں ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ وہ مقننہ کے موقف کی تائید کرتی ہے۔ مقننہ نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ یہ ریاست کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جب مقننہ نے کہا ہے کہ جلی کٹو تمل ناڈو کا ثقافتی ورثہ ہے تو عدلیہ اس سے مختلف موقف اختیار نہیں کر سکتی۔ عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ اس مسئلہ پر فیصلہ لینے کا اختیار صرف اور صرف مقننہ کو ہے۔


بنچ نے کہا کہ عدالت اس مواد سے مطمئن ہے کہ جلی کٹو تمل ناڈو میں کئی سالوں سے رائج ہے اور اسے تمل ثقافت کا اٹوٹ حصہ سمجھا جاتا ہے اور یہ معاملہ عدلیہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال دسمبر میں عرضیوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھا تھا، جن میں بیلوں کو قابو میں کرنے کے کھیل کو 'جلی کٹو' اور بیل گاڑیوں کی دوڑ کی اجازت دینے والے تمل ناڈو اور مہاراشٹر کے قوانین کو چیلنج کیا گیا تھا۔ ایک تحریری جواب میں تمل ناڈو حکومت نے کہا تھا کہ جلی کٹو صرف تفریح ​​نہیں ہے بلکہ اس کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ ہے۔

جلی کٹو کیا ہے؟

جلی کٹو تمل ناڈو میں فصل کی کٹائی کے موقع پر منائے جانے والے تہوار پونگل کا حصہ ہے۔ پونگل چار دنوں تک منایا جاتا ہے۔ اس چار روزہ میلے میں تیسرا دن خاص طور پر جانوروں کے لیے رکھا گیا ہے۔ جلی کا مطلب تمل میں سکے کا تھیلا ہے اور کٹو کا مطلب بیل کا سینگ ہے۔ کھیلوں کی یہ روایت تقریباً ڈھائی ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے۔


اس کھیل میں پہلے تین بیل چھوڑے جاتے ہیں، جنہیں کوئی نہیں پکڑتا۔ یہ گاؤں کے سب سے عمردراز بیل ہوتے ہیں۔ جب یہ بیل چلے جاتے ہیں تو جلی کٹو شروع ہو جاتا ہے۔ اس کھیل میں بیلوں کے سینگوں سے سکوں کی تھیلی باندھی جاتی ہے۔ لوگوں کو یہ تھیلی دوڑتے ہوئے بیلوں سے حاصل کرنی پڑتی ہے، جیتنے والے کو انعام بھی دیا جاتا ہے۔

اس کھیل کے سبب 2010 اور 2014 کے درمیان 17 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور 1100 سے زائد زخمی ہوئے۔ وہیں، پچھلے 20 سالوں میں جلی کٹو کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 200 سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد مئی 2014 میں اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا بمقابلہ ناگراجا معاملہ میں عدالت عظمیٰ کے دو ججوں کی بنچ نے تمل ناڈو میں جلی کٹو اور ملک بھر میں بیل گاڑیوں کی دوڑ کے لیے بیلوں کے استعمال پر پابندی لگا دی تھی۔ بعد ازاں، تمل ناڈو نے جلی کٹو کو اجازت دینے کے لیے جانوروں پر ظلم کی روک تھام قانون، 1960 میں ترمیم کر دی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔