رام دیو کی مبینہ کورونا کی دوائی اور مغربی یوپی سے جڑی بوٹی ’گلوئے‘ کے غائب ہونے کا راز!

پتنجلی کے کورونا کی دوا ایجاد کر لینے کے دعوے کے درمیان انکشاف ہوا ہے کہ گزشتہ دنوں مغربی یوپی میں پائی جانے والی گلوئے نامی جڑی بوٹی کی طلب اچانک بڑھ گئی تھی اور اب یہ یہاں سے تقریباً غائب ہو چکی ہے

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

حال ہی میں ’یوگ گورو‘ سے کاروباری بنے بابا رام دیو نے دعوی کیا ہے کہ ان کی کمپنی پتنجلی نے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کی دوا ایجاد کر لی ہے جس کا نام انہوں نے ’کورونیل‘ رکھا گیا ہے۔ رام دیو نے ایک تقریب کے دوران کورونا کی اس مبینہ دوا کو لانچ تو کر دیا لیکن لوگوں کو ٹھیک سے معلوم بھی نہیں چلا تھا کہ رام دیو نے کیا ’کارنامہ‘ انجام دیا ہے کہ حکومت نے یہ کہتے ہوئے اس دوا کی تشہیر پر پابندی عائد کر دی کہ پتنجلی نے اس دوا کے حوالہ سے نہ تو تجربہ کی تفصیل متعلقہ محکمہ کو فراہم کی ہے اور نہ ہی باضابطہ طور پر کورونا کی دوا تیار کرنے اور اسے فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کیا ہے۔

دریں اثنا یہ ضرور معلوم چلا کہ پتنجلی نے انسانی جسم کے مدافعتی نظام (امیونٹی سسٹم) کو مضبوط کرنے کی دوا بنانے کا لائسنس حاصل کیا تھا۔ رام دیو اکثر ٹی وی پر نظر آتے ہیں اور کئی جڑی بوٹیوں کے ساتھ ’گلوئے‘ کا بھی نام لیتے ہیں اور اس کے بےشمار فائدے بھی لوگوں کو بتاتے ہیں۔ دریں اثنا، ہریدوار میں واقع پتنجلی کے صدر دفتر کے 100 کلومیٹر سے زیادہ کے دائرے سے یہ جڑی بوٹی بالکل غائب ہو گئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں نے گھوم گھوم کر گلوئے اکٹھی کی اور اسے پتنجلی تک پہنچایا۔ اب سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ کیا گلوئے کے دم پر ہی رام دیو نے کورونا وائرس کی دوا ایجاد کرنے کا دعوی کر ڈالا؟


اس معاملہ میں جب تحقیق کی گئی تو کئی باتوں کا انکشاف ہوا۔ سہارنپور کے ناگل تھانہ میں آنے والے ننہیڑا گاؤں کے رہائشی ایک بڑے کسان شاہویز گاڑا نے بتایا کہ ایک مہینے قبل ان کے بھانجوں محمد عمر اور انیس نے انہیں بتایا تھا کہ بابا رام دیو کی پتنجلی کے لوگ علاقہ میں گھوم رہے ہیں اور گلوئے اکٹھا کر ہے ہیں اور ایک ہزار روپے فی کونٹل تک دینے کو تیار ہیں۔ شاہویز کے مطابق انہوں نے اپنے بھانجوں کی باتوں کو مذاق سمجھ کر نظر نداز کر دیا۔ پتنجلی کا صدر دفتر اس گاؤں سے 50 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

اسی اثنا میں پتنجلی سے 112 کلومیٹر دور واقع مظفرنگر ضلع کے ایک نمائندہ نے علاقہ میں بڑے پیمانے محکمہ جنگلات کی پشت پناہی میں کی جا رہی گلوئے کی اسمگلنگ کی خبر اپنے اخبار کو بھیجی لیکن ایڈیٹر نے خبر کو غیر ترجیحی مان کر نظر انداز کر دیا۔

ادھر، مغربی یوپی کے تیسرے ضلع میرٹھ میں بھی گلوئے کے حوالہ سے سرگرمی نظر آئی اور یہاں کے تقریباً آدھا درجن چمڑے کے کاروباری اچانک گاؤں گاؤں گھوم کر گلوئے خریدنے لگے۔ آن کی آن میں گلوئے کو ریڑوں، رکشوں اور موٹر سائکلوں سے ڈھویا جانے لگا اور بڑی بڑی گاڑیوں کے ذریعے اسے ہریدوار پہنچایا جانے لگا۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

اب انکشاف ہوا ہے کہ ہزاروں کونٹل گلوئے پتنجلی کو بھیجی جا چکی ہے اور پتنجلی نے اس کے عوض پہلے 600 روپے فی کونٹل، پھر 1000 روپے فی کونٹل تک ادا کئے اور جب اس کا ملنا مشکل ہونے لگا تو قیمت کو بڑھا کر 1600 روپے فی کونٹل تک کر دیا گیا۔

دہرہ دون کے حکیم سرفراز پدھان کہتے ہیں کہ گلوئے جنگل میں پیدا ہونے والی جڑی بوٹی ہوتی ہے جس کی بیل اکثر پیپل کا بڑ کے درخت پر لٹکی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلوئے کافی گرم ہوتی ہے اور گرم پانی میں گھول پر پینے سے ڈینگو بخار سے لے کر ذیابطس تک میں آرام ملتا ہے، یہاں تک کہ خون میں پلیٹلٹز کی تعداد بھی اس کو پینے سے بڑھ جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گلوئے ایک انٹی آکسیٹنٹ ہے اور مدافعتی نظام کو بہتر بناتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کل تک جس جڑی بوٹی کو کوئی پوچھتا نہیں تھا وہ آج اچانک سے قیمتی بن گئی ہے۔

ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ رام دیو جس کورونیل کے حوالہ سے دعوی کر رہے ہیں کہ وہ کورونا کا کے لئے کارگر ہے وہ دراصل گلوئے ہی ہے۔ گنگوہ سہارنپور کے لوکیش گوجر کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے دوران 3 مہینے کے اندر 100 کلومیٹر کے دائرے میں گلوئے موجود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گلوئے کورونا کا علاج کر پائے گی یا نہیں یہ تو نہیں کہہ سکتے لیکن بابا رام ویو نے آج تک جس طرح کے کام کئے ہیں اس سے ان کے دعووں پر یقین کرنا مشکل ہے۔


پتنجلی کے دفتر سے گلوئے کی خرید کے حوالہ سے سوال کیا گیا تو وہاں سے اعداد و شمار بتانے سے انکار کر دیا گیا، تاہم یہ ضرورو کہا گیا کہ ہزاروں کونٹل گلوئے خریدی گئی ہے۔ نیز اس کا استعمال دوائی بنانے میں کیا جاتا ہے۔

بہرحال، کل تک جو گلوئے کسانوں کے لئے کسی کام کی نہیں تھی وہ اچانک انہیں نایاب نظر آنے لگی ہے اور متعدد کسان اب اس جڑی بوٹی کی کھیتی کے بارے میں بھی سوچنے لگے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 26 Jun 2020, 9:40 PM