اے ایم یو میں نایاب دستاویزات کو محفوظ کرنے کا عمل، لائبریری کی 18 ہزار کتابوں کا ڈیجیٹائزیشن مکمل
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سیکڑوں سال پرانی تاریخی کتابوں اور سر سید سے متعلق دستاویزات کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ کرنے کا عمل جاری ہے
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں سینکڑوں سال پرانی تاریخی کتابوں اور سر سید سے متعلق دستاویزات کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ کرنے کا عمل جاری ہے۔ یہ اہم دستاویزات چھونے بھر سے پھٹ جا رہے تھے، لہذا، یونیورسٹی نے اپنی لائبریری کو ڈیجیٹل کر لیا ہے۔ اب تک 15 ہزار دستاویزات اور کتابوں کو ڈیجیٹل کیا جا چکا ہے۔
سر سید اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد شاہد نے بتایا کہ اب تک مدرسۃ العلوم، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج اور یونیورسٹی سے متعلق دستاویزات کو ڈیجیٹائز کیا جا چکا ہے۔ سر سید کی لکھی ہوئی کتابیں اور ان پر لکھی گئی کتابوں کو بھی ڈیجیٹل کیا جائے گا اور اس کی شروعات کی جا چکی ہے۔
خیال رہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 1875 میں ایک مدرسے کے طور پر شروع ہوئی تھی، جس کا نام مدرسۃ العلوم رکھا گیا۔ اس کے بعد 1877 میں مدرسۃ العلوم محمڈن اینگلو اورینٹل کالج قائم ہوا۔ پھر 1920 میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج یونیورسٹی بن گیا، جس کا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی رکھا گیا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد سر سید احمد خان نے رکھی تھی۔
اے ایم یو کی سر سید اکیڈمی کے پاس مدرسہ بننے سے لے کر یونیورسٹی بننے تک تمام دستاویزات موجود ہیں، جن کی تعداد تقریباً ایک لاکھ 40 ہزار ہے۔ یہ دستاویزات ہاتھ سے چھونے سے پھٹ جاتے ہیں لہذا ان کو اب ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے محفوظ کیا جا رہا ہے۔
اے ایم یو کی سرسید اکیڈمی میں یونیورسٹی سے متعلق ہر چیز کو محفوظ کیا گیا ہے۔ اس میں سرسید کی کتابوں سے لے کر شیروانی تک سب کچھ موجود ہے۔ اے ایم یو سے متعلق چیزوں کو یہاں بہت پوری حفاظت کے ساتھ رکھا گیا ہے۔ سرسید اکیڈمی سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مولانا آزاد لائبریری کو بھی ڈیجیٹل کیا گیا ہے۔ مولانا آزاد لائبریری کا تقریباً 90 فیصد ڈیجیٹلائزیشن ہو چکا ہے۔
مولانا آزاد لائبریری ایشیا کی سب سے بڑی لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ جہاں 14 لاکھ سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ مولانا آزاد لائبریری میں اردو، فارسی، سنسکرت اور عربی زبانوں کی نایاب کتابوں کا عالمی شہرت یافتہ ذخیرہ موجود ہے۔ اس کے علاوہ 1400 سال سے زیادہ پرانا قرآن مجید کا نسخہ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ابوالفیض فیضی کی بھگوت گیتا کا فارسی ترجمہ بھی موجود ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔