جنگ زدہ یوکرین سے واپس لوٹے میڈیکل طلبا کی پریشانی، ہر حال میں جانا ہوگا بیرون ملک، طالبہ نے لکھا اجتماعی خودکشی کا نوٹ!
اسمیتا کا کہنا ہے کہ 20 ہزار طلبا منجدھار میں پھنس گئے ہیں اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یوکرین سے تعلیم شروع ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے لیکن گھر والے اور بچے بیرون ملک جانے سے خوفزدہ ہیں
یوکرین سے واپس لوٹے میڈیکل کے طالب علم اپنی آگے کی تعلیم پوری کرنے کے لئے پریشان ہیں۔ طلبا کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں نیشنل میڈیکل کونسل (این ایم سی) ایسی صورتحال پیدا کر رہی ہے کہ طلبا کو واپس جا کر جنگ زدہ یوکرین میں پڑھنا پڑے گا لیکن اگر ایسا ہوتا ہے تو بہت سے طلبا کی جان جا سکتی ہے، جس کی ذمہ داری صرف اور صرف حکومت ہند پر عائد ہوگی۔ طلبا نے اس فیصلے کو اجتماعی خودکشی قرار دیا ہے۔ یوکرین کی ونیشیا میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ اسمیتا ان دنوں وقت کافی زیر بحث ہیں۔ اسمیتا کا تعلق دہلی سے ہے اور وہ یوکرین سے واپس آنے والے میڈیکل طلباء کے ایک گروپ کی قیادت کر رہی ہیں۔ اسمیتا نے اجتماعی خودکشی کا نوٹ لکھ کر سنسنی پیدا کر دی ہے۔ اسمیتا نے یہ نوٹ ٹوئٹر پر پوسٹ کیا ہے۔
اسمیتا کا کہنا ہے کہ 20 ہزار طلبا منجدھار میں پھنس گئے ہیں اور کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ یوکرین سے تعلیم شروع ہونے کا نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے لیکن گھر والے اور بچے بیرون ملک جانے سے خوفزدہ ہیں۔ اسمیتا کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اب کوئی راستہ نہیں بچا۔ اسمیتا بتاتی ہیں کہ 28 جولائی کو وہ این ایم سی گئی تھیں جہاں انہیں بتایا گیا کہ ان کی آن لائن اسٹڈیز کو تسلیم نہیں کرے گا۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان کے اسپتالوں سے بھی منسلک نہیں ہوں گی اور یہاں پریکٹیکل کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔ اسمیتا کے مطابق این ایم سی کا کہنا ہے کہ طلبا ہر حال میں بیرون ملک جا کر ہی تعلیم مکمل کرنا ہوگی۔ یونیورسٹی ان کا ٹرانسفر پولینڈ، بوسنیا، کرغزستان جیسے ممالک میں کر سکتی ہے لیکن وہاں جانے پر ایک سے لاکھ تک نئی فیس ادا کرنی ہوگی۔
اسمیتا کا الزام ہے کہ حکومت طلبا کی مدد نہیں کر رہی۔ دوسرے ممالک میں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً مطالعہ کا طریقہ، زبان کا بحران اور بدلی ہوئی آب و ہوا۔ اس کے علاوہ زیادہ تر بچے متوسط گھرانوں سے ہیں اور وہ اضافی رقم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’حکومت کو ہمارے بارے میں سوچنا چاہیے اور ہمیں آن لائن اسٹڈیز کے ساتھ یہاں پریکٹیکل کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔‘‘
مظفر نگر کی ایک طالبہ شویتا سنگھ بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہیں، جو یوکرین میں 5 سمسٹر تک تعلیم حاصل کر چکی ہیں۔ شویتا سنگھ کے والد پروین کمار مظفر نگر کے ایک کالج میں ٹیچر ہیں اور انہوں نے اپنی تنخواہ کا نصف اپنی بیٹی کی فیس ادا کرنے میں خرچ کیا ہے۔ شویتا سنگھ کے دادا ریٹائرڈ ٹیچر تیج پال سنگھ کہتے ہیں کہ اب اپنے بچے کو مرنے کے لیے یوکرین نہیں بھیج سکتے! حکومت ہند کو ہمارے لیے کچھ کرنا چاہئے۔ تیج پال سنگھ کا کہنا ہے کہ ملک میں میڈیکل کی تعلیم بہت مہنگی ہے، اسی وجہ سے انہوں نے شویتا کو یوکرین پڑھنے کے لیے بھیجا۔
یوکرین سے لوٹے اییک اور میڈیکل کے طالب علم شاہ رخ چودھری، جو قطب پور گاؤں کے رہائشی ہیں، وہ پولینڈ جانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ان کے والد ریاست علی پریشان ہیں، خاندان کے دیگر افراد بھی پریشان ہیں۔ شاہ رخ کا کہنا ہے کہ ان کے والد نے انہیں ڈاکٹر بنانے کا خواب دیکھا تھا اور ان کی صرف 6 ماہ کی تعلیم باقی ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم کسان ہیں اور ڈاکٹر بننے کے لئے کئی طرح کی تکلیفوں کو برداشت کیا ہے۔ میرے والدین کے خوابوں سے بڑا کوئی بم نہیں ہو سکتا!‘‘ ریاست علی کا کہنا ہے کہ باپ ہونے کے ناطے وہ ڈر رہے ہیں لیکن بیٹا نہیں مان رہا اور وہ ٹرانسفر لے کر پولینڈ جا رہا ہے۔ اسی طرح کے خدشات ہزاروں طلبا اور ان کے اہل خانہ کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں۔
میرٹھ کے سنیل میتریہ بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا ہاردک میتریہ یوکرین کے خارکیف کی یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کر رہا تھا۔ وہ آج بھی ان دنوں کو یاد کر کے لرز جاتے ہیں جب ان کا بیٹا پولینڈ کی سرحد پر پھنسا ہوا تھا۔ ان کا کہنا ہے ’’اس وقت تو حکومت الیکشن میں مصروف تھی اور وہ اس کے لئے بچوں سے زیادہ ضروری تھی لیکن اسے تو بچوں کی اب بھی یاد نہیں آئی! این ایم سی کا رویہ بھی بچوں کے تئیں منفی نظر آتا ہے۔ ہم پھنس گئے ہیں، اب کوئی راستہ نظر نہیں آتا!‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔