اپوزیشن پارٹیوں کو لگا ’سپریم‘ جھٹکا، سی بی آئی اور ای ڈی کے خلاف داخل عرضی کو عدالت عظمیٰ نے کیا خارج
عدالت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کے زیادہ کیس دکھانے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر صرف لیڈروں کے لیے خاص گائیڈلائنس کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔
کانگریس سمیت 14 اپوزیشن پارٹیوں نے سی بی آئی اور ای ڈی جیسی مرکزی جانچ ایجنسیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کی تھی۔ اس عرضی کو آج سپریم کورٹ نے خارج کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ اپوزیشن پارٹیوں کے لیے انتہائی بری خبر ہے۔
سی بی آئی اور ای ڈی کے خلاف عرضی اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے گزشتہ ماہ سینئر وکیل ابھشیک منو سنگھ کے ذریعہ داخل کی گئی تھی۔ اس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ گزشتہ کچھ سالوں میں سی بی آئی اور ای ڈی کے ذریعہ دائر معاملوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ قریبی معاملوں پر غور کیا جائے تو سی بی آئی اور ای ڈی کے 95 فیصد معاملے اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈران کے خلاف تھے۔ اسی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں نے مستقبل کے لیے گائیڈلائنس کا مطالبہ عدالت سے کیا تھا۔ عرضی پر سماعت چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی تین ججوں کی بنچ نے کی۔ اس بنچ میں جسٹس پی ایس نرسمہا اور جے بی پاردیوالا بھی شامل تھے۔
سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ خصوصی معاملے کی دلیلوں کے بغیر عام گائیڈلائنس مقرر کرنا ممکن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ’’لیڈروں کے لیے الگ گائیڈلائنس نہیں بنا سکتے۔‘‘ عدالت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن لیڈروں کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کے زیادہ کیس دکھانے والے اعداد و شمار کی بنیاد پر صرف لیڈروں کے لیے گائیڈلائنس کا مطالبہ نہیں کیا جا سکتا۔ انھیں اس طرح سزا سے کوئی چھوٹ نہیں ملتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ لیڈران عام شہریوں کے برابر ہی ہوتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ عرضی دہندہ کی طرف سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ سیاسی عدم اطمینان کو پوری طرح سے کچلنے اور جمہوریت کے بنیادی دائرہ کو ختم کرنے کے مقصد سے سی بی آئی اور ای ڈی جیسی جانچ ایجنسیوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ کانگریس کے علاوہ اس مشترکہ عرضی پر دستخط کرنے والی پارٹیوں میں ڈی ایم کے، آر جے ڈی، بی آر ایس، ترنمول کانگریس، عآپ، این سی پی، شیوسینا (یو بی ٹی)، جے ایم ایم، جنتا دل یو، سی پی آئی ایم، سی پی آئی، سماجوادی پارٹی اور نیشنل کانفرنس شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔