جلوس محمدیؐ کو احمقوں، بیہودوں اور بہکنوں کا ہجوم بنا دیا گیا...مشاہد رفعت
جلوس کے دوران تقریباً کان پھوڑ ڈی جے لے کر چلنے والی ایک انجمن میں شامل ایک لڑکے کو سڑک کے کنارے بلا کر میں نے پوچھا کہ تمہاری انجمن کا نام کیا ہے؟ تو جواب ملا ’بینر پر لکھا ہے، پڑھ لو!‘
ذرا سوچیں، اگر کل صبح شہر کے اخبارات میں یہ سرخی لگ جائے جو میں نے لگائی ہے، تو آپ کو کتنا برا لگے گا؟ اور جب آپ اس بارے میں بہت سوچ چکے تو مجھے میسج کر کے بتائیے گا کہ وہ یہ سرخی کیوں نہ لگائیں؟ جو جلوس 8 اکتوبر 2022 کو پرانے شہر بریلی میں نکالا گیا، اس کے بارے میں لکھنا یا کہنا سراسر غلط ہوگا کیا؟ کانوں کے پردے پھاڑ ڈالنے والے ڈی جے، بائیک پر کرتب دکھانے والے بیہودوں اور ہوا میں رومال لہرا لہرا کر اچھلتے کودتے شور مچاتے بے شرموں کے ہجوم کو عقیدت و احترام سے نکالا جلوس محمدی لکھنے والا کوئی آنکھ کا اندھا ہی ہوگا، میں نہیں۔
چند انجمنوں کو چھوڑ دیں تو کم و بیش سب کا برا حال تھا۔ جلوس کے نام پر بدتمیزی کرنے والوں نے نہ تو منتظمین کی بات سنی، نہ درگاہ والوں کی سنی اور نہ ہی اپنے علاقے کے بزرگوں کی بات کر کان دھرے، پولیس اور انتظامیہ کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔ وہ ہنگامہ، وہ اودھم اور وہ بیہودگی ظاہر کی گئی جس کی کوئی حد نہیں۔
جلوس کے دوران تقریباً ڈھائی بجے کنکر ٹولہ چوکی کے سامنے کان پھوڑ ڈی جے لے کر چلنے والی ایک انجمن میں شامل ایک لڑکے کو سڑک کے کنارے بلا کر میں نے پوچھا کہ تمہاری انجمن کا نام کیا ہے؟ تو جواب ملا ’بینر پر لکھا ہے، پڑھ لو!‘ دوسرے سے پوچھا تو اس نے کہا مدینہ شاہ کے امام باڑے کی انجمن ہے۔ نام پوچھا تو وہ بھی بغلیں جھانکنے لگا۔ میں نے پھر پوچھا، تم انجمن میں شامل ہو اور تمہیں اس کا نام تک نہیں معلوم؟ اس بار لڑکے نے سفید جھوٹ بولا کہ میں دور سے آیا ہوں، مجھے نہیں پتا، تم خود پڑھ لو۔ نہ زبان شیریں، نہ لہجے میں نرمی اور نہ کوئی شرمندگی! مجھے محسوس ہی انہیں ہوا کہ میں جلوسِ محمدی میں شامل کسی عقیدت مند سے بات کر رہا ہوں۔ خیر میں تیز رفتاری سے آگے بڑھ کر بینر پر نظر ڈالی تو اسے دیکھتے ہی مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ اس پر انجمن کا نام لکھا تھا ’انجمن فیضانِ تحسینی‘۔ جو قائرین مجھے ذاتی طور پر جانتے ہیں وہ سمجھ گئے ہوں گے کہہ کہ مجھے شرمندگی کیوں محسوس ہوئی۔ بہرحال یہ ذاتی باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے۔ مگر اجتمائی طور پر ہم نے 8 اکتوبر 2022 کی شب جو نظیر پیش کی تھی، اس کے بعد اگر ہم یہ توقع رکھیں کہ ہمارے انداز، ہمارے رویے اور ہماری تہذیب کی تعریف کی جائے تو ہمارا کچھ نہیں ہو سکتا، کچھ بھی نہیں!
آخر میں ایک اور بات! میں جانتا ہوں کہ یہ سب لکھ کر میں بہت سے لوگوں کی ناراضگی مول لے رہا ہوں لیکن کیا کروں، اخبارات میں رسمی بیان دے کر پلہ نہیں جھاڑ سکتا۔ میری اتنی حیثیت نہیں ہے، میں یہاں لکھ سکتا ہوں تو میں نے لکھ دیا۔ میرے بس میں یہی تھا، سو میں نے کر دیا۔ آپ کے بس میں جو ہے، وہ آپ سب کریں گے؟ اخبارات میں بیانات دینے اور اپیل کرنے سے آگے کب بڑھیں گے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔