بابری مسجد کے عوض دی گئی زمین پر بننے والی مسجد 'مسجد ضرار' ہوگی

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ سبھاش ساؤنگی نے کہا کہ توہین عدالت کا ڈر دکھا کر اس فیصلے کے خلاف ہمیں اظہار رائے سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ ہماری اظہار آزادی رائے کے خلاف ہے۔ "سپریم کورٹ اب سپریم نہیں رہا"۔

علامتی مسجد، تصویر آئی اے این ایس
علامتی مسجد، تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اورنگ آباد: بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے حقائق و شواہد اور قانونی بنیادوں و واضح ثبوتوں کو یکسر نظرانداز و درکنار کرتے ہوئے محض عقیدت کی بنیاد پر دیئے گئے عجیب و غریب فیصلے کے نتیجے میں دی جانے والی 5 ایکڑ ارضی پر بنائے جانے والی مسجد کو 'مسجد ضرار ' سے تعبیر کرتے ہوئے، مسلمانوں سے اپیل کی گئی کہ وہ مسجد کے لیے دی گئی جگہ اور وہاں بنائے جانے والی مسجد سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کریں اور اس کے لیے کسی بھی قسم کا تعاون یا چندہ وغیرہ نہ دیں۔

اورنگ آباد میں 'کُل جماعتی وفاق مسلم نمائندہ کونسل' کی جانب سے "اجلاس بابری مسجد" عنوان کے تحت منعقدہ ایک اجلاس عام سے خطاب کرتے ہوئے صدرِ کونسل ضیاءالدین صدیقی نے اترپردیش کے سنی وقف بورڈ کو جس نے حکومت سے یہ زمین لینے کی حامی بھری ہے، سخت ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ یہ یوگی آدتیہ ناتھ کے ہاتھوں چند ٹکوں میں بکنے والوں کا گروہ ہے جو بھارت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی رائے عامہ اور دیگر مذاہب کے سیکولر، انصاف پسند، صاحب بصرت اور وسیع النظر افراد کے مشوروں کے بغیر وہاں مسجد تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی مسجد تعمیر کی جاتی ہے تو وہ 'مسجد ضرار' ہوگی۔


بابری مسجد کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے منعقدہ اس اجلاس میں "بابری مسجد۔۔۔عدالتی کارروائیاں عدل و انصاف کے ترازو میں" اس عنوان پرحافظ محمد مختار خان اشاعتی، ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، سبھاش ساؤنگی کر نے اور "میڈیا ٹرائل اور بھارتی مسلمان" عنوان پر ڈاکٹر تنویر ( شعبہ صحافت ایم جی ایم کالج )اور ڈاکٹر بالا صاحب جادھو نے، اسی طرح "بابری مسجد کی موجودہ صورت حال پر مسلمانوں کا شرعی موقف" پرمولانا نعمان ندوی (جمیعت الشباب) نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ضیاء الدین صدیقی نے کہا کہ اس اجلاس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ بابری مسجد سے متعلق ہمارا جو موقف ہے وہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔ آج بھی ہمارا یہی موقف ہے کہ بابری مسجد، مسجد تھی، مسجد ہے اور مسجد ہی رہے گی۔ انھوں نے واضح کیا کہ گو کی زمینی حقیقت آج مختلف ہے، مسجد شہید کی جا چکی ہے، وہاں مندر بنانے کی تیاریاں ہو چکی ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ بابری مسجد کی تعمیر نو اب ناممکن ہو چکی ہے۔ لیکن ہم بھارتی ملسلمان اپنے موقف کو رتی برابر بھی تبدیل کرنے کو تیار نہں ہیں۔


انھوں نے کہا کہ وقت اور حالات میں تغیر اور تبدیلیاں نمایاں ہوتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ایسا ہوگا۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار اور طاقت صرف انہی کے پاس رہے گی، وہ خام خیالی میں مبتلا ہیں۔ وقت اور حالات کا پہیہ ہمیشہ گردش میں رہتا ہے۔ اس لیے ہمیں مایوس و ناامید ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اںھوں نے طاقت کے نشہ میں چور من مانی اور ناانصافی کرنے والوں کو تنبہ کرتے ہوئے کہا کہ ظالموں! اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے، وہ یقیناً سُنے گا صدائیں میری، کیا تمہارا خدا ہے، ہمارا نہیں۔

ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، سبھاش ساؤنگی نے کہا کہ توہین عدالت کا ڈر دکھا کر اس فیصلے کے خلاف ہمیں اظہار رائے سے روکا جا رہا ہے ۔ یہ ہماری اظہار آزادی رائے کے خلاف ہے۔ "سپریم کورٹ اب سپریم نہیں رہا"۔ "سپریم کورٹ کا ایک رخ ایسا ہونا چاہیے کہ اس کی قابلیت، میرٹ اور سچ کو اس کے فیصلوں سے ٹپکنا چاہیے۔" لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے اس لیے ہم باہر چرچہ کر رہے ہیں۔ اور اسی طرح کے مباحثے نہ ہوں اس کے لیے ہمیں توہین عدالت کا ڈر بتا کر ہماری اظہار رائے کی آزادی چھینی جا رہی ہے۔


ڈاکٹر تنویر نے میڈیا ٹرائل کو کسی خاص طبقے کو نشانہ بناکر ایوان اقتدار تک پہنچنے کا عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ 2014 کے بعد سے مسلمانوں کے خلاف میڈیا ٹرائل کے ذریعے انھیں بدنام کرنے، انھیں دہشت گرد قرار دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔ دنیا کے مختلف مقامات پر ایسا پہلے بھی ہو چکا ہے اور آج بھی جاری ہے۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک افریقی ملک روانڈا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کی وہاں ' ریڈیو روانڈ '' کی نشریات سے متاثر ہو کر وہاں تقریباً 7 لاکھ مسلمانوں کو قتل کیا گیا تھا۔ برما میانمار میں میڈیا ٹرائل کے ذریعے سے ہی لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کیا گیا۔ وہاں سوشل میڈیا پر 2 لاکھ جھوٹے اکاونٹ بنا کر مسلمانوں کے خلاف عوامی جذبات کو مشتعل کیا گیا۔

مولانا نعمان ندوی نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے جتنے بھی خطا کار ہیں وہ آخرکار اپنے انجام بد کو پہچ رہے ہیں، انھوں نے اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور نرسمہا راو کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان کا اںجام آج دینا دیکھ رہی ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کو اپنے اعمال درست کرنے اور دین پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ اسی کے ذریعے سے ہم اپنی منزل مقصود کو پا سکتے ہیں۔


اجلاس کے آخر میں قراردا دیں منظور کی گئں۔ ( 1) مسلم نمائندہ کونسل اورنگ آباد کا یہ اجلاس بابری مسجد کو مسجد سمجھتا ہے، اور اپنے موقف کا اظہار کرتا ہے کہ بابری مسجد، مسجد تھی مسجد ہے اور مسجد رہے گی، انشاءاللہ، وقتی حالات کے پیش نظر حثیت بدلنے سے مسجد کی حقیقی حثییت نہیں بدلتی، ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں ہمت حوصلہ اور قوت عطا فرمائے کہ ہم اللہ کے اس گھر کو تیری اذانوں سے آباد کرسکیں۔

(2) کونسل کا یہ اجلاس میڈیا کے بےمہار طور طریقوں کی سخت مذمت کرتا ہے، میڈیا عدالتوں اور حکومتوں کے تال میل کے ساتھ کی جا رہی نا انصافیوں کے خلاف اپنے غم وغصہ کا اظہار کرتا ہے ارباب اقتدار سے مطالبہ کرتا ہے کہ میڈیا کے لیے ایک Moral Code Of Conduct بنایا جائے۔ ( 3) کونسل کا یہ اجلاس بابری کے فیصلے پر اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے، مطالبہ کرتا ہے کہ عقیدت کے بجائے فیصلے کی بنیاد حقائق پر رکھی جائے اور دوبارہ اس کیس کو ثبوتوں اور حقائق کی بنیاد پر طے کیا جائے۔ (4) بابری مسجد کے بدلے جو زمین دی گئی ہے اسے مسلمان قبول نہ کریں اور وہاں جو مسجد بنائی جائے گی اس کے لئے کوئی چندہ نہ دیں، کیونکہ یہ اجلاس بت پرستی کے لئے لی گئی مسجد کے بدلے جو زمین دی جا رہی ہے اس پر بننے والی مسجد کو مسجد ضرار سمجھتا ہے، (5) مسلم نمائندہ کونسل کا یہ اجلاس ED کے چھاپوں کی مذمت کرتا ہے، اور متنبہ کرتا ہے کہ ایسی اوچھی حرکتوں سے حق بات بولنے والوں کو دبایا نہیں جاسکتا۔ (6 ) یہ اجلاس کسانوں کے احتجاج کو صیحح سمجھتا ہے اور ان کے مطالبوں کو قبول کرنے اور کسان مخالف قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کرتا ہے۔ ( 7) یہ اجلاس مسلمانوں سے اپیل کرتا ہے اتحاد واتفاق کے ساتھ جماعتوں، مسلکوں سے اوپر اٹھ کر حق کا ساتھ دینے کی کوشش کریں، حق کے طرفدار بنیں ناکہ غیر جانبدار۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔