متھرا شاہی عیدگاہ کیس بھی چلا بابری مسجد کیس کی راہ پر، سبھی معاملے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے پاس کیے ٹرانسفر

ہائی کورٹ میں داخل عرضی میں کہا گیا تھا کہ متھرا واقع شری کرشن جنم بھومی معاملہ قومی اہمیت کا حامل ہے اور اسے دیکھتے ہوئے سماعت ہائی کورٹ کے ذریعہ کی جانی چاہیے۔

متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد
متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد
user

قومی آواز بیورو

متھرا کے شری کرشن جنم بھومی-شاہی عیدگاہ تنازعہ سے جڑے سبھی معاملے الٰہ آباد ہائی کورٹ نے 26 مئی کو اپنے پاس ٹرانسفر کر لیے۔ رام جنم بھومی کیس کی طرح اب اس معاملے کا بھی ٹرائل ہائی کورٹ میں ہوگا۔ بھگوان شری کرشن وراجمان کی عرضی پر فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ نے یہ حکم صادر کیا ہے۔ اس کے علاوہ عدالت نے متھرا ضلع کورٹ سے سبھی معاملوں کے ریکارڈ اپنے پاس بھیجنے کو کہا ہے۔ گزشتہ سماعت کے دوران دلیلیں پیش کرتے ہوئے یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے وکیل نے 25 مئی کو سول جج کی عدالت سے کہا کہ یہ معاملہ سماعت کے قابل نہیں ہے کیونکہ اس تعلق سے 1968 میں ہی معاہدہ ہو گیا تھا۔

دراصل بھگوان شری کرشن وراجمان اور 7 دیگر کی طرف سے متھرا کورٹ میں زیر التوا مقدمات کو ہائی کورٹ میں منتقل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی داخل ہوئی تھی۔ عرضی میں کہا گیا تھا کہ متھرا واقع شری کرشن جنم بھومی معاملہ قومی اہمیت کا ہے اور اسے دیکھتے ہوئے سماعت ہائی کورٹ کے ذریعہ کی جانی چاہیے۔


عدالت میں سبھی فریقین یعنی یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ، مینجمنٹ ٹرسٹ کی کمیٹی، شاہی مسجد متھرا، شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ اور شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان اپنا اپنا جواب داخل کر چکے ہیں۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے گزشتہ 3 مئی کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ اب سبھی کیس کو ہائی کورٹ منتقل کرنے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔

واضح رہے کہ متھرا میں شری کرشن جنم بھومی تنازعہ بہت پرانا ہے۔ تنازعہ 13.37 ایکڑ زمین پر مالکانہ حق سے جڑا ہوا ہے۔ 12 اکتوبر 1968 کو شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان نے شاہی مسجد عیدگاہ ٹرسٹ کے ساتھ معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ میں 13.7 ایکڑ زمین پر مندر اور مسجد دونوں بننے کی بات ہوئی تھی۔ شری کرشن جنم استھان کے پاس 10.9 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق ہے اور 2.5 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق شاہی عیدگاہ مسجد کے پاس ہے۔


بہرحال، ہندو فریق کا کہنا ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد کو ناجائز طریقے سے قبضہ کر کے بنائی گئی ہے۔ اس زمین پر ان کا دعویٰ ہے۔ ہندو فریق کی طرف سے ہی شاہی عیدگاہ مسجد کو ہٹانے اور اس زمین کو بھی شری کرشن جنم استھان کو دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔