پہلی ملک گیر تحریک آزادی: کلمہ پڑھنے والا اور برہم کے منتروں کو گنگنانے والا، سب نے مل کر بغاوت کی

پہلی ملک گیر جنگ آزادی 10 مئی 1857 دنیا کے طول و عرض پر برپا ہونے والی ا پنی نوعیت کی ایک منفرد تحریک تھی

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

شاہد صدیقی علیگ

پہلی ملک گیر جنگ آزادی 10 مئی 1857 دنیا کے طول و عرض پر برپا ہونے والی ا پنی نوعیت کی ایک منفرد تحریک تھی ۔جس میں بلالحاظ مذہب وملت،بادشاہ،امرا، تعلقہ دار، شعرائ، ادبا ،پنڈت ،علمائ، خواتین اور نوجوانوں نے حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار حصّہ لیا۔ جسے دیکھ کر ’ تفرقہ ڈالو حکومت کرو ‘ کے ماہر کھلاڑی فرنگیوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی تھی۔

تھامسن لکھتا ہے کہ، ’’ دختر کش راجپوت، کٹر برہمن، متعصب مسلمان اور عیش پسند توند والا منچلا مرہٹہ،سبھی جہاد میں شامل ہو گئے۔ گائے کا پجاری، خنزیر سے کراہت رکھنے والا اور خنزیر کا گوشت کھانے والا لاالہ الا اللہ کا کلمہ پڑھنے والا اور برہم کے منتروں کو گنگنا نے والا، سبھی نے مل کر بغاوت کی۔‘‘

قابل ذکر امر ہے کہ میرٹھ میں 10 مئی 1857 کو جن دیسی سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا تھا ان میں 49 مسلمان اور 36 ہندو تھے۔ جن کی نگاہوں میں مغل بادشاہ مرکزی حیثیت رکھتے تھے۔ چناں نچہ سر کشی کا ناقوس پھونکتے ہی انہوں نے دلی کی جانب رخ کیا اور ان سے انقلاب کی زمام سنبھالنے کی مؤدبانہ درخواست کی تو صوفی صفت عالم پناہ نے کچھ تامل کیا لیکن بعد ازیں عنان ہاتھوں میں لے کر پوری مہم میں استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے، مساوات اور رواداری کے علمبردار تاجدار ہند نے بال مکند کو اپنا معتمد مقرر کیا۔


اسی اثنا میں عید الاضحیٰ آ گئی تو شاطر انگریزوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کیونکہ گائے کی قربانی کے نام پر ا نگریز فرقہ وارنہ کشیدگی پھیلا کر ہندو مسلم اتحاد پاش پاش کرنا چاہتے تھے، جو ایک بہت بڑے المیہ سے کم نہیں ہوتا۔ مگر بخت خاں نے بادشاہ سلامت کی ایما پر 9 جولائی کو ڈھنڈورا پٹوایا کہ جو گائے ذبح کرے گا وہ توپ کے منھ سے اڑا دیا جائے گا۔ اس منادی سے انگریزوں کی تمنائیں خاک میں مل گئیں۔ جس کا اعتراف کیتھ ینگ نے 2 اگست کو اپنی بیوی کے نام لکھے خط میں یوں کیا کہ ’’بہ ظاہر کل شہر میں زبردست فساد کے لیے ہماری امیدیں پوری نہیں ہو سکیں۔ بادشاہ نے نہ صرف گائے بلکہ بکری تک کی قربانی پر شہر میں پابندی عائد کر دی ہے چنانچہ بجائے اس کے کہ وہ لوگ آپس میں دست و گریباں ہوتے، ہمارے خلاف متحدہ اور بھرپور یلغار کرنے کے لیے ایک ہو گئے ہیں تاکہ ہمیں تاراج کر دیں اور صفحہ ہستی سے ہمارا نام و نشان بھی مٹا ڈالیں۔‘‘ ایسی ہی ناپاک کوشش انہوں نے روہیل کھنڈ میں 1857 کے آخری مہینوں میں کی تھی لیکن اخوت و بھائی چارگی کے سبب امن کی فاختہ لہکتی رہی۔ جس کا اقرار جارج کوپر صاحب سکریٹری چیف کمشنر اودھ نے یکم دسمبر 1857 کو بی ایف ایڈمنٹن کو لکھے مکتوب میں یوں کیا:

’’جناب عالیٰ! بہ سلسلہ مکتوب چیف کمشنر بنام گورنر جنرل بہادر مورخہ 14 ستمبر جس میں انہوں نے پچاس ہزار روپے کی رقم بریلی کی ہندو آبادی کو مسلمان باغیوں کے خلاف آمادہ پیکار کرنے پر صرف کرنے کی اجازت دی ہے۔ مجھے کپتان گون کے خط مورخہ14 ستمبر کا اقتباس پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے جس سے حضور والا کو یہ علم ہوگا کہ یہ کوشش ناکام رہی اور اس کو ترک کر دیا گیا اور اس پر کوئی رقم صرف نہیں کی گئی۔‘‘

چنانچہ ابنائے وطن کے اتحاد اور یگانگتی کے سبب انگریزوں کا پھوٹ ڈالو اور راج کرو کا روایتی ہتھیار کار گر نہیں ہو سکا۔ ملاحظہ کیجئے ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے چند مشعل بردار رہنما جن کی قیادت میں ہندو و مسلمان شیر و شکر ہو کر دو سال تک مقابلہ آرائی کرتے رہے۔


اودھ میں بیگم حضرت محل کی سربرا ہی میں انقلابیوں نے انگریزوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا تھا۔ ان کے ہاتھ مضبوط کرنے والوں میں راجہ بینی پرشاد، راجہ دیبی بخش، گلاب سنگھ، ہنومت سنگھ، راجہ بال بھدر سنگھ اور راجہ بال کشن کے نام قابل ذکر ہیں، جو بیگم حضرت محل کو راج ماتا کہہ کر پکارتے تھے۔

جھانسی میں رانی لکشمی بائی کا نواب علی بہادر ثانی، فوجی سردار غلام غوث محمد، دوست خاں، خدابخش، مندرا مسلم خاتون، سردار برہان الدین، وفادار محافظ گل محمد، جیل داروغہ بخشش علی، مولانا احسان علی، بخشش علی، سردار کالے خاں رسالدار، تحصیل دار محمد حسین وغیر نے شانہ بہ شانہ ساتھ دیا۔ مزید برآں بشارت علی کی زیر کمان ڈیڑھ ہزار افغان فوجیوں نے ملک کی حرمت و آبرو پہ اپنی جانیں نچھاور کیں۔


نانا پیشوا راؤ نے اپنے داہنے ہاتھ عظیم اللہ خاں کے ہمراہ تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے ملک کی یکے بعد دیگرے چھاؤنیوں میں جاکر سپاہیوں کو کمپنی حکومت کے خلاف مشتعل کیا اور ان کا خیال تھا کہ بہادر شاہ ظفر کی سربراہی میں ہندو اور مسلمان متحد ہو کر انگریزوں کے وجود سے ملک کو پاک کر دیں گے۔ ان کے قافلہ میں شامل محمد عظیم علی خاں عرف نواب ننھّے شمس الدین خاں، شاہ علی، رحیم خاں، کریم علی اور عزیزن رقاصہ نے اپنی بے مشل جانفشانیوں سے انگریزوں کو دن میں تارے دکھا دیے تھے۔

جگد یش پور کے ریاستدار بابو کنور سنگھ کا بھی مسلمان انقلابیوں قاضی ذوالفقار علی خاں، مولوی علی کریم، حشمت علی، استاد غلام حسین خاں اور میر قاسم شیر نے دوش بدوش ساتھ دیا۔

بہرکیف اگر ہمیں وطن عزیز کو ترقی کے راستے پر لے جانا ہے تو 1857 کی روح یعنی ہندو مسلم اتحاد کو دوبارہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ لہٰذا عقل و دانش سے عاری بعض کوتاہ نظر ہندوستانی ہوش کے ناخن لیں۔ بقول سرسید احمد ہندو و مسلمان ایک دلہن کی دو آنکھوں کی طرح ہیں۔

تحریک گلوخلاصی تقربیاً دو سال تک چلی جس میں ہندوؤں اور مسلمانوں پوری ہمت و استقلال کے ساتھ شانہ بہ شانہ نبرد آما رہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔