یوپی انتخاب: بجنور میں پولنگ بوتھوں کے باہر بھیڑ دیکھ کر سیاسی پنڈت حیران
بجنور میں بوتھوں پر مسلم طبقہ کی زبردست بھیڑ دکھائی دے رہی ہے، انتخاب سے پہلے کی قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے ووٹرس ’تقسیم کے فارمولہ‘ کو بھی فیل ظاہر کر رہے ہیں۔
بجنور میں ووٹنگ کے دوران لوگوں میں زبردست جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آج صبح سے ہی بڑی تعداد میں ووٹرس پولنگ مراکز پر جمع ہو رہے ہیں۔ خصوصاً بوتھوں پر مسلم طبقہ کی بھیڑ دکھائی پڑ رہی ہے۔ انتخاب سے پہلے کی قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے اب ووٹرس میں تقسیم کے امکانات سے بھی کوئی فرق پڑتا نظر نہیں آ رہا۔ ووٹروں کا جوش دیکھ کر ہی پتہ چل جاتا ہے کہ وہ حکومت بدلنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور حکومت بنانے میں۔ بجنور کی ناہید انور نے بتایا کہ وہ صبح سے ووٹ ڈالنے کا انتظار کر رہی ہے۔ ان کی ایک چھوٹی بچی ہے لیکن بوتھ پر زبردست بھیڑ جمع ہے۔ وہ انتظار کر رہی ہے کہ کب کم بھیڑ ہو اور وہ ووٹ ڈال کر آئیں۔
بجنور کے محلہ مردراگان کے سہیل پہلی بار ووٹ ڈال کر آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ روزگار چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے ووٹ دیا ہے۔ بجنور ضلع میں 8 اسمبلی سیٹ ہیں۔ بجنور شہر سے بی جے پی رکن اسمبلی سوچی چودھری اور سماجوادی پارٹی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر نیرج کے درمیان اصل انتخابی لڑائی دکھائی پڑ رہی ہے۔ نجیب آباد میں بھی ووٹنگ کی رفتار بہت اچھی ہے۔ یہاں بی جے پی کے کنور بھارتیندو سنگھ اور اتحاد کے تسلیم احمد میں ٹکر دکھائی دے رہی ہے۔ دونوں فریقین کو ووٹ خوب پڑ رہے ہیں۔ چاند پور اسمبلی حلقہ میں کسانوں نے بہت جوش کے ساتھ ووٹ دیا ہے۔ نہٹور اور دھام پور پر ووٹنگ امید سے کچھ دھیمی دکھائی پڑ رہی ہے۔ چاندپور کے سریندر چودھری نے بتایا کہ وہ انتخاب میں کسانوں کے مفاد کے لیے ووٹ کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : یوپی: بی جے پی کا کھدیڑا ہوگیا... اعظم شہاب
نہٹور اور نگینہ سیٹ پر بوتھ پر مسلم خواتین کی کافی بھیڑ جمع ہے۔ یہ دونوں اسمبلی سیٹ محفوظ ہیں۔ نگینہ کی شمع پروین نے بتایا کہ وہ حکومت بدلنے کے لیے ووٹ دے رہی ہے۔ درج فہرست ذات کے لیے محفوظ سیٹوں پر مسلم خواتین کا بڑھ کر ووٹ کرنا ایک بڑا پیغام دیتا ہے۔ بجنور کے بڑھاپور اسمبلی میں ووٹنگ سب سے کم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس اسمبلی حلقہ کے بیشتر بوتھ دیہی علاقوں میں ہیں۔ اسی اسمبلی حلقہ کے گاؤں منیاوالا کے دھیریندر کشیپ، جو مچھلی پروری کا کام کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے وہ تالاب کا ٹھیکہ لے سکتے تھے، لیکن اب ایسا نہیں ہوتا ہے۔ ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے۔ وہ اپنے روزگار کے لیے ووٹ کر رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔