بلقیس بانو کی اجتماعی عصمت دری کرنے والے مجرم رہائی سے پہلے 1000 دن جیل سے باہر تھے!
گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ مجرموں کو اس سال کے شروع میں مرکز کی منظوری کے بعد وقت سے پہلے رہا کر دیا گیا تھا
اخباروں میں شائع خبر کے مطابق عدالتی دستاویزات میں یہ بتایا گیا ہے کہ بلقیس بانو کے اجتماعی عصمت دری اور اس کے اہل خانہ کو قتل کرنے کے جرم میں سزا یافتہ 11 قیدیوں میں سے دس قیدی ایک ہزار دن سے زیادہ کے لیے جیل سے باہر تھے ۔ واضح رہے دسوے مجرم نے بھی ایک ہزار نہ صحیح لیکن ۹۹۸ دن جیل سے باہر گزارے ہیں۔
ان میں سے ایک اس یوم آزادی کے موقع پر مجرموں کی رہائی سے قبل 1500 دنوں تک جیل سے باہر تھا۔ رمیش چندانہ نے 1,198 دن کی پیرول چھٹی اور 378 دن کی فرلو (جیل سے مجرموں کی قلیل مدتی عارضی رہائی) کا لطف اٹھایا یعنی جیل سے باہر کل 1,576 دن گزارے۔ دستاویز سے پتہ چلتا ہے کہ دو دیگر 1200 دنوں سے زیادہ جیل سے باہر رہےہیں ۔
اس سال کے شروع میں مرکز کی منظوری کے بعد مجرموں کو وقت سے پہلے رہا کر دیا گیا تھا، گجرات حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا، حالانکہ سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن اور ایک خصوصی عدالت نے "گھناؤنے" جرم کے ارتکاب کے لیے ان کی رہائی کی مخالفت کی تھی۔
دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت داخلہ کی منظوری 11 جولائی کو آئی تھی جس کے لئے ریاستی حکومت نے دو ہفتے پہلے ہی مرکز کو درخواست دی تھی ۔ ان کی رہائی نے گجرات میں ایک سیاسی طوفان برپا کردیا۔مجرموں کی رہائی کو چیلنج کرنے والی تین درخواستیں اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔ سپریم کورٹ میں اپنے حلف نامہ میں، گجرات حکومت نے کہا کہ مجرم 14 سال سے جیل میں تھے اور ان کا رویہ اچھا پایا گیا تھا۔
دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ سی بی آئی نے پچھلے سال ان کی قبل از وقت رہائی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ایک ایسا جرم کیا ہے جو گھناؤنا اور سنگین ہے۔
ایک خصوصی جج نے بھی رہائی کی مخالفت کی تھی، جیسا کہ اس نے نوٹ کیا کہ "جرم صرف اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ متاثرین کا تعلق ایک خاص مذہب سے ہے۔ اس معاملے میں، نابالغ بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔"
اسپیشل جج آنند ایل یاولکر نے گزشتہ سال مارچ میں گودھرا سب جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو لکھے گئے خط میں کہا تھاکہ ’’یہ نفرت انگیز جرم اور انسانیت کے خلاف جرم کی بدترین شکل ہے۔ یہ معاشرے کے شعور کو متاثر کرتا ہے۔‘‘
بلقیس بانو صرف 21 سال کی تھی جب انہیں ایک ہجوم نے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ قصورواروں کو ممبئی کی خصوصی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے بعد میں بمبئی ہائی کورٹ نے برقرار رکھا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔