مغربی یوپی میں جو بھائی چارہ نظر آ رہا، اس کی بنیاد چودھری اجیت سنگھ رکھ کر گئے تھے (یومِ پیدائش پر خصوصی پیشکش)
جاٹوں اور مسلمانوں میں قربت کے لیے جو کوشش چودھری اجیت سنگھ نے کی وہ ناقابل فراموش ہے، حالانکہ اب جبکہ یہ قربت بہت واضح طور پر نظر آ رہی ہے، وہ اسے دیکھنے کے لیے دنیا میں موجود نہیں۔
آج چودھری اجیت سنگھ کی کورونا سے ہوئی افسوسناک موت کو 9 مہینے مکمل ہو چکے ہیں اور آج ان کا یوم پیدائش ہے۔ ان کے 82ویں یوم پیدائش کے پیش نظر لاتعداد مقامات پر جلسۂ خراج کا انعقاد ہوا۔ خصوصاً مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر اور شاملی ضلع میں انھیں ایک خاص وجہ سے نم آنکھوں کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ چودھری اجیت سنگھ کو جاٹ-مسلم بھائی چارہ دوبارہ پیدا کرنے اور اس کے لیے لگاتار کوشش کرتے رہنے کے لیے شکریہ ادا کیا گیا۔
مرکزی حکومت میں کئی بار وزیر رہے چودھری اجیت سنگھ سابق وزیر اعظم چودھری چرن سنگھ کے بیٹے اور کسان لیڈر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ 2013 کے مظفر نگر فساد کے بعد افسردہ ہوئے چودھری اجیت سنگھ لگاتار جاٹ مسلم بھائی چارے کے لیے انتھک کوشش کرتے رہے۔ اس کے لیے انھوں نے کئی بار یاترا نکالی، راتوں کو دوسروں کے گھروں میں وقت گزارا، تنقید کا سامنا کیا اور آخر کار انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔ مغربی اتر پردیش کے جاٹ اور مسلم اکثریتی علاقوں میں فساد کا غم بھلا کر ایک بار پھر جاٹ اور مسلم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ جس کی مثال حال ہی میں ہوئی انتخابی تشہیر اور ووٹنگ میں دیکھنے کو ملی ہے۔
جاٹوں اور مسلمانوں میں نزدیکی لانے کے لیے جو کوشش چودھری اجیت سنگھ نے کی وہ ناقابل فراموش ہے۔ حالانکہ اب جب وہ اس میں کامیاب ہوئے ہیں تو وہ اسے دیکھنے کے لیے دنیا میں موجود نہیں ہیں۔ ان کے بیٹے چودھری جینت سنگھ نے ان کے نظریہ کو آگے بڑھا کر انھیں سچی خراج عقیدت پیش کی ہے۔ چودھری اجیت سنگھ نے مغربی اتر پردیش میں نظر آ رہی نفرت کی سیاست کو اپنے تجربات کے استعمال اور محنت کے دم پر کمزور کیا اور ملک بھر کے سامنے ایک مثال پیش کی۔
چودھری اجیت سنگھ نے فساد متاثرہ علاقوں میں کئی طرح سے اعتماد کی بحالی کے لیے مہم چلائی اور جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان بھروسہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ 82 سالہ کسان لیڈر غلام محمد جولا کہتے ہیں کہ چودھری اجیت سنگھ کو وہ ان کی مضبوط عزائم کے لیے سلام کرتے ہیں۔ چودھری صاحب بہاؤ کے برعکس چلے اور بہے نہیں۔ انھوں نے خود کو ایک مضبوط انسان اور باہمت لیڈر ثابت کیا۔ آج مغربی اتر پردیش میں کسانوں کا پرچم بلند ہوا ہے تو اس کی وجہ بھی چودھری صاحب ہیں۔ خاص کر مسلمانوں کے درمیان وہ جس طرح اپنا پیغام لے کر گئے، وہ فساد متاثرین سے ملتے رہے اور اس فساد کی سازش کا انکشاف کرتے رہے وہ ان کی ہمت کا ہی نمونہ تھا۔ آج آر ایل ڈی جس طرح مضبوط نظر آ رہی ہے، یہ اسی محنت کی دین ہے جسے جینت چودھری نے آگے بڑھانے کا کام کیا ہے۔
مظفر نگر کے مسلمانوں کے سماجی ادارہ پیغام انسانیت کے سربراہ آصف راہی بتاتے ہیں کہ مظفر نگر میں مسلم سماج میں اعتماد بحالی کے لیے چودھری اجیت سنگھ مظفر نگر کئی بار آئے۔ انھوں نے مسلم دانشوروں سے آگے بڑھ کر ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کی اور کہا کہ وہ فساد متاثرین کے درمیان رات گزاریں گے، اور انھوں نے ایسا کیا بھی۔ انھوں نے مسلم مذہبی پیشواؤں سے ملاقات کی۔ چودھری اجیت سنگھ ایسا انتخاب کے لیے نہیں کر رہے تھے۔ انھوں نے اس کی کوشش 2014 کے بعد ہی شروع کر دی تھی۔ مظفر نگر میں انتخاب انھوں نے 2019 میں لڑا۔ وہ اس انتخاب میں 47 فیصد ووٹ لے کر ہار گئے اور ان کی ہار کی ٹیس اب تک دل میں ہے۔ ایڈووکیٹ اجمل بتاتے ہیں کہ اس سے بھی پہلے 2013 کے فسادات کے فوراً بعد جب انھوں نے جاٹ سماج کے چودھریوں سے ملاقات میں ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے صاف صاف کہا تھا کہ یہ آپ نے کیا کیا! نفرت کی سیاست کرنے والوں کو اپنی کمان دے دی۔ جب بھی ان سے بات ہوئی وہ اس بھائی چارے کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے بے چین دکھائی دیے۔
جمعیۃ علماء ہند کے ریاستی صدر مولانا فرقان اسدی بتاتے ہیں کہ جب چودھری اجیت سنگھ بھائی چارہ یاترا نکال رہے تھے تو وہ ان کے گھر آئے تھے۔ ان کی بات چیت کا مرکز صرف بھائی چارہ ہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو وہ جوان ہیں، انھیں تھکن نہیں ہوتی، اور وہ پوری توانائی سے زندگی بھر اعتماد بحالی کے لیے کوشش کرتے رہیں گے۔ وہ تمام کسان ذاتوں کو متحد کریں گے اور اپنے والد چودھری چرن سنگھ کے کمیرا طبقہ کو ایک جگہ کھڑا کریں گے۔ جس نفرت کی سیاست نے ان میں پھوٹ ڈالی ہے وہ اس نظریہ کے خلاف لڑیں گے۔ اجیت سنگھ خوب لڑے اور وہ آج یاد آتے ہیں۔
سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے مقامی باشندہ او پی تومر بتاتے ہیں کہ اعتماد بحالی کے پانچ سالوں کی انتھک محنت کی حالیہ کامیابی کو دیکھنے کے لیے آج چودھری صاحب موجود نہیں ہیں جو کہ افسوس کا باعث ہے۔ لیکن انھیں اس کے اشارے مل گئے تھے۔ کیرانہ لوک سبھا ضمنی انتخاب میں آر ایل ڈی امیدوار کے طور پر تبسم حسن کی جیت اس کا مضبوط ثبوت تھی۔ تبسم حسن کو جاٹ اکثریتی علاقوں سے زبردست تعداد میں عوامی حمایت ملی تھی اور ان میں فساد متاثرہ گاؤں بھی شامل تھے۔ او پی تومر کہتے ہیں کہ یہ حالات آج بھی ویسے ہی ہیں جسے جینت چودھری نے آگے بڑھایا ہے۔ جیسے کیرانہ اسمبلی انتخاب میں جاٹوں نے تبسم حسن کی بیٹی اقرا حسن کو اپنی بیٹی مان کر انتخاب لڑوایا، جب کہ امیدوار اقرا حسن کا بھائی ناہید حسن جیل میں ہے۔ یہی نہیں، تبسم حسن کے انتخاب میں جاٹوں کی خواتین کی اس قربانی کو تو کوئی نہیں بھول سکتا جس میں رمضان کے مہینے میں مسلم خواتین کو پہلے ووٹ دینے کے موقع کے لیے وہ خود لائن سے ہٹ گئی تھیں۔ یقیناً یہ ماحول چودھری اجیت سنگھ نے پیدا کیا، جس کے لیے انھوں نے لگاتار کوشش کی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔