دس فیصد ریزرویشن دینے کا قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے خلاف: جسٹس احمدی
جنرل کیٹگری کے معاشی طور پر کمزور افراد کو دس فیصد ریزرویشن دینے پر پر آج راجیہ سبھا میں بحث جاری ہے لیکن کیا یہ قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کی روح کے خلاف نہیں ہے؟۔
عام انتخابات سے چند ماہ پہلے اور پارلیمنٹ کے آخری دن معاشی طور پر کمزور جنرل کیٹگری کے افراد کو دس فیصد ریزریشن دینے کا بل پارلیمنٹ میں پیش کرنا اپنے آپ میں واضح اشارہ ہے کہ اس کا مقصد اس کیٹگری کے لوگوں کو راحت پہنچانا نہیں ہے بلکہ عام انتخابات کی تیاری ہے ۔وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے جیسے یہ بل لوک سبھا میں پاس ہو گیا ویسے ہی راجیہ سبھا میں بھی منظور ہو جائے گا، لیکن اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سپریم کورٹ میں ٹک پائے گا کیونکہ اس دس فیصد ریزرویشن کے بعد وہ حد پار ہو جائے گی جو سپریم کورٹ نے 50 فیصد سے زیادہ ریزرویشن نہ دینے کی حد طے کی ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق جسٹس اے ایم احمدی کے مطابق حکومت کا یہ قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے۔
واضح رہے سابق جسٹس اے ایم احمدی 1992 میں منڈل کمیشن پر فیصلہ دینے والے جج حضرات میں سے ایک ہیں اور ان جج حضرات نے ریزرویشن کی حد 50 فیصد مقرر کی تھی ۔ سابق جسٹس اے ایم احمدی نے انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بی جے پی کی قیادتت والی حکومت کا یہ قدم ریزرویشن پر دیئے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے برعکس ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حد بڑھائی نہیں جا سکتی اور یہ قدم صرف انتخابی مقاصد کے تحت لیا گیا ہے، انہوں نے کہا یہ پوری طرح صاف ہے کہ ’’آئین کی شق 16 کے مطابق کسی کا پسماندہ ہونا معاشی بنیاد پر بالکل طے نہیں ہو سکتا ۔ اسی کے مد نظر ہم نے اکثریت والے فیصلے میں اس بات کو طے کیا تھا ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ مانتے ہیں کہ حکومت کا قدم سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کے خلاف ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سارے معاملہ کی گہرائی سے دیکھنےکی ضرورت ہے کیونکہ یہ ایک انتہائی اہم آئینی فیصلہ ہے ۔ واضح رہے کئی بڑے قانونی ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ حکومت کا یہ قدم سپریم کورٹ کے فیصلے کےخلاف ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔