اے آئی ایم آئی ایم خود کو مسلمانو ں کا نمائندہ نہ کہے: وزیر اعلی تلنگانہ
ریونت ریڈی نے اکبرالدین سے کہا کہ وہ خود کو مسلمانوں کا نمائندہ نہ کہیں۔ اگر ایسا ہے تو پھر جوبلی ہلز سیٹ سے اظہر الدین کو ہرانے کے لیے اپنا امیدوار کیوں کھڑا کیا۔
تلنگانہ اسمبلی میں وزیر اعلی ریونت ریڈی اور اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اکبر الدین اویسی کے درمیان لفظوں کی شدید جنگ دیکھنے میں آئی۔ اویسی نے الزام لگایا کہ کانگریس مسلمانوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس پر وزیر اعلی ریڈی کا غصہ بڑھ گیا اور انہوں نے اویسی کو منہ توڑ جواب دیا۔
دراصل اسمبلی میں توانائی کے شعبے پر بحث چل رہی تھی۔ جب اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اکبرالدین اویسی نے پرانے شہر میں پاور سیکٹر سے متعلق زیر التواء کاموں کا مسئلہ اٹھایا، تو کانگریس ایم ایل اے ستیہ نارائنا نے ان سے پوچھا، "جب ان کی دوست پارٹی بی آر ایس اقتدار میں تھی تو وہ 10 سال تک کیا کر رہے تھے؟" اس سے ناراض ہو کر اویسی نے کچھ تبصرے کیے، جن کی حکمراں جماعت نے سخت مخالفت کی۔ اویسی نے کہا، "کیا آپ کو لگتا ہے کہ 10 سال بعد اقتدار ملنے کے بعد آپ ہمیں ڈرا سکتے ہیں؟ ہم ڈرنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم لڑیں گے اور لڑتے رہیں گے۔"
اکبر الدین اویسی یہیں نہیں رکے اور انہوں نے بحث کے دوران کہا، "متحدہ آندھرا پردیش کے آخری وزیر اعلی کرن کمار ریڈی نے مجھے جیل بھیجا تھا۔ میں پانچ بار جیل گیا اور اگر مجھے دوبارہ جانا پڑا تو میں جاؤں گا۔ اگر آپ محاذ آرائی چاہتے ہیں تو، ہم اس کے لیے تیار ہیں۔"
اس پر وزیر اعلی ریونت ریڈی نے مداخلت کی اور اویسی سے کہا، ’’اے آئی ایم آئی ایم مسلمانوں کی نمائندہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔‘‘ انہوں نے سوال کیا کہ کیا اے آئی ایم آئی ایم واقعی مسلمانوں کی طرف سے بول رہی ہے؟ انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی کو وضاحت کرنی چاہئے کہ اس نے جوبلی ہلز نشست سے الیکشن کیوں لڑاک ؟ اس سیٹ سے کانگریس کے امیدوار سابق ہندوستانی کرکٹ کپتان محمد اظہرالدین کو شکست دینے کے لیے اس حلقے سے کسی مسلم امیدوار کو میدان میں اتارا۔انہوں نے 10 سال کی "غلط حکمرانی" کے باوجود بی آر ایس کا دفاع کرنے پر اویسی کی تنقید کی۔
وزیر اعلیٰ نے یہ بھی کہا، "کانگریس حکومت اقلیتوں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے پرعزم ہے۔ کانگریس نے اقلیتوں سے لوگوں کو وزیر اعلیٰ اور صدر کے عہدوں پر تعینات کیا۔ کانگریس کو اقلیتی بہبود کے لیے کسی سے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔