تیستا سیتلواڑ کے ساتھ کاشی وِدیاپیٹھ میں نازیبا سلوک
معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ کا کہنا ہے کہ ’’کاشی وِدیاپیٹھ جیسے معروف ادارہ کا ایسے نظریہ والوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا مایوس کن ہے جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا۔‘‘
اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) کے اراکین کے لیے دھمکی دینا اور دہشت پھیلانا عام بات ہو گئی ہے۔ تازہ معاملہ حقوق انسانی کارکن اور صحافی تیستا سیتلواڑ سے متعلق ہے جنھیں اے بی وی پی کے لوگوں نے نہ صرف دھمکایا بلکہ ان کے ساتھ نازیبا سلوک بھی کیا۔ دراصل تیستا کاشی ودیاپیٹھ میں ایک ورکشاپ منعقد کرنے کے مقصد سے وارانسی پہنچی تھیں۔ ورکشاپ کا موضوع تھا ’سوشل میڈیا کے اس دور میں اصل دھارے کی صحافت‘۔27 فروری 2018 کو دوپہر دو بجے شروع ہونے والے اس ورکشاپ میں شامل ہونے سے تیستا کو روکا گیا اور حیرانی ہے کہ یو پی پولس نے ایسا ہونے دیا۔
دیکھا جائے تو پولس اس پورے معاملے میں اے بی وی پی کے غنڈوں کا تعاون ہی کرتی رہی، کیونکہ ایسا نہیں ہوتا تو کبھی وہ تیستا کے ساتھ نازیبا سلوک نہیں کر پاتے۔ سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس (سی جے پی) نے اس پورے معاملے کی سخت مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’’سی جے پی زور زبردستی کا سہارا لے کر تیستا سیتلواڑ کا راستہ روکنے اور ان سے بغیر کسی اختیار کے پوچھ تاچھ کی مذمت کرتا ہے۔‘‘
جہاں تک ورکشاپ کے انعقاد کا معاملہ ہے، انتظامیہ نے اس کی اجازت دے دی تھی لیکن 26 فروری 2018 کو اے بی وی پی کے ذریعہ ورکشاپ میں رخنہ پیدا کرنے کی دھمکی کے بعد 27 فروری کی صبح انتظامیہ نے زبانی طور پر ورکشاپ منعقد کرنے کی اجازت واپس لے لی۔ 27 تاریخ کو ہی انعقاد کے مقام پر بڑی تعداد میں پی اے سی اور پولس عملہ تعینات کر دیا گیا۔ کاشی وِدیاپیٹھ کسی جنگ کے میدان جیسا نظر آنے لگا تھا جو حیران کرنے والا تھا۔ چونکہ طلبا و طالبات بڑی تعداد میں ورکشاپ میں حصہ لینے کے لیے آئے تھے اس لیے اے بی وی پی کے چار پانچ کارکنان نے کالج انتظامیہ سے مل کر ہنگامہ شروع کر دیا اور تیستا کو روکنے لگے۔
ذرائع کے مطابق جب تیستا سیتلواڑ (جو کہ سی جے پی کی سکریٹری بھی ہیں) وہاں پہنچیں تو اچانک بڑی تعداد میں پولس عملہ وہاں پہنچ گیا اور ان کا راستہ روک دیا۔ اس کے باوجود تیستا اپنا مضبوط قدم آگے بڑھانے لگیں کیونکہ جمع ہوئے طلبا و طالبات چاہتے تھے کہ چندر شیکھر کے یوم پیدائش پر ان کے مجسمہ کو وہ مالا پہنائیں۔ لیکن تیستا کو پولس والوں نے گھیر لیا اور طلبا و طالبات کی پٹائی شروع کر دی۔ پولس بے وجہ گالیاں دے رہی تھی اور پٹائی کر رہی تھی جس میں ہریش مشرا، سورج یادو، روشن کمار، گیانو یادو، اجیت یادو، رویندر ورما جیسے اسٹوڈنٹ کو چوٹیں پہنچیں۔ اس دوران اے بی وی پی کارکنان نے نعرے بھی لگائے۔
اس واقعہ کو دیکھ کر واضح ہے کہ سیاسی پشت پناہی کی وجہ سے اے بی وی پی کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ معروف سماجی کارکن کے ساتھ بھی غلط سلوک کرنے سے باز نہیں آتی۔ اس تنظیم کو ریاستی حکومت کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت کی بھی مدد مل رہی ہے۔ اس پورے معاملے میں تیستا سیتلواڑ کا کہنا ہے کہ ’’کاشی وِدیاپیٹھ جیسے معروف ادارہ، جس کا افتتاح مہاتما گاندھی نے کیا تھا، کا ایسے نظریہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینا مایوس کن ہے جس نے مہاتما گاندھی کا قتل کیا تھا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔