تین طلاق دینے پر تین سال کی سزا
مسودہ قانون کے تحت ایک ہی نشست میں زبانی، تحریری ، ای میل ، ایس ایم ایس یا واٹس ایپ جیسے الیکٹرانک ذرائع سے تین طلاق دینا غیرقانونی ہوگا اور ایسا کرنے والا تین سال سزا کا حقدار ہوگا۔
مرکزی حکومت کی طرف سے تین طلاق کے حوالے سے تیار کئے گئے مسودے میں کہا گیا ہے کہ ایک بار میں تین طلاق دینا غیر قانونی ہوگا اور ایسا کرنے والوں کو تین سال کی سزا ہو سکتی ہے۔ ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ مسودہ ’مسلم خواتین کے نکاح سے متعلق حقوق کی حفاظت ‘ جمعہ کو ریاستی حکومتوں کے پاس ان کی رائے طلب کرنے کے لئے بھیج دیا گیا ہے اور ریاستی حکومتوں سے مسودے پر فوری رد عمل ظاہر کرنے کو کہا گیا ہے۔ افسر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد حکومت کا ماننا تھا کہ یہ چلن بند ہو جائے گا لیکن یہ جاری ہے۔اس سال فیصلے سے پہلے طلاق کے 177 معاملات سامنے آئےجبکہ عدالتی فیصلے کے بعد 66 معاملات درج ہوئے ہیں ۔
یہ مسودہ وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کی صدارت والے ایک عبوری وزراء کی کونسل نے تیار کیا ہے ۔ اس کونسل میں دیگر ارکان وزیر خارجہ، وزیر خزانہ ارون جیٹلی، وزیر قانون روی شنکر پرساد اور وزیر مملکت برائے قانون پی پی چودھری شامل ہیں ۔
مجوزہ قانون ایک بار میں تین طلاق یا طلاق بدعت پر لاگو ہوگا اور یہ متاثرہ کو خود اور نابالغ بچوں کے لئے گزارہ بھتہ مانگنے کے لئے مجسٹریٹ سے گہار لگانے کا حق فراہم کرے گا۔ اس کے تحت بول کر، لکھ کر ، ای میل ،ایس ایم ایس اور واٹس ایپ جیسے دیگر الیکٹرانک ذرائع سے دی جانے والی تین طلاق غیر قانونی ہوگی۔
یہ قانون ریاست جموں و کشمیر پر لاگو نہیں ہوگا۔ طلاق اور نکاح کے موضوع پر آئین کے رو سے حکومت ہند ہنگامی صورت حال میں قانون بناسکتی ہے لیکن کمیشن کی سفارشات کے پیش نظر حکومت نے ریاستوں سے صلاح و مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
افسر کے مطابق پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس میں اس بل کو منظور کرانے کا منصوبہ ہے۔ سرمائی اجلاس جو کہ 15 دسمبر 2017سے 5 جنوری2018 تک چلے گا۔
حال ہی میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ہندوستانی عوام کی پر زور خواہش ہے کہ پارلیمنٹ میں تین طلاق اور نیشنل او بی سی کمیشن دونوں معاملات پر قانون سازی کرے اور حکومت اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچا نے کے لئے پابند عہد ہے۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمالکریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 02 Dec 2017, 1:04 PM