یوم اساتذہ پر استادوں کو لاٹھیاں ملیں!
نئی دہلی :ایک طرف جہاں ملک بھر میں یوم اساتذہ پر جشن منایا گیا اورلوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنے اساتذہ کو یاد کیا وہیں دوسری طرف لکھنؤ میں اساتذہ کو اپنے مطالبات کے لئے آواز اٹھانے پر لاٹھیاں ملیں اور دہلی میں اساتذہ نے اپنے مطالبات کے حق میں گرفتاریاں دیں۔ لکھنؤ میں اسمبلی کے سامنے حکومت مخالف احتجاج کر رہے اساتذہ کو پولیس نے دوڑا دوڑا کر لاٹھیوں سے پیٹا ۔ پولیس کی طرف سے لاٹھیاں چلائے جانے کے بعد بھگدڑ مچ گئی اور صورت حال بے قابو ہو گئی۔ یہ سبھی وہ ’شکشا متر‘ تھےجو یو پی حکومت سے اپنی ملازمتوں کو مستقل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے ۔
وہیں دہلی میں آل انڈیا ٹیچرس یونین کے بینر تلے ملک بھر سے آئے اساتذہ نے جنتر منتر پر تنخواہیں نہ ملنے کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا اور گرفتاریاں دیں۔ اس سے قبل اساتذہ مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر سے بھی ملے۔ تمام اساتذہ نے کالی پٹی باندھ کر احتجاج کیا اور تقریباً ڈیڑھ ہزار اساتذہ نے گرفتاریاں دیں۔ اساتذہ کا کہنا تھا کہ وہ جب پہلے پرکاش جاوڈیکر سے ملے تھے تب بھی انہیں یقین دہانی کرائی تھی اور وہی یقین دہانی آج بھی کرائی گٖی لیکن کوئی قابل اعتبار بات نہیں کی۔
واضح رہے کہ یہ دن ہندوستان کے پہلے نائب صدر اور دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹر سرو پلی رادھا کرشنن کے یوم پیدائش پر منایا جاتا ہے جوکہ بنیادی طور پر ایک معلم تھے اور اساتذہ کے معیارزندگی کو بہتر بنانے کے لئے کوشاں تھے۔ ہندوستان میں یوم اساتذہ کو گرم جوشی کے ساتھ منایا جا تا ہے اور اس دن کئی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو آرام دیا جاتا ہے اور سینئر کلاس کے بچے ٹیچر کا کردار ادا کرتے ہیں اور اساتذہ کے لئے مختلف پروگراموں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس دن طالب علم انپے اساتذہ کو کارڈ، پھول اور تحفے بھی دیتے ہیں ۔رادھا کرشنن صدر جمہوریہ ہند ہونے کے باوجود بھی خود کو استاد کہلانا پسند کرتے تھے ۔
قومی آواز نے یوم اساتذہ کے موقع پر سماج کے مختلف لوگوں سے گفتگو کرکے جاننے کی کوشش کی کہ اس دن کے تعلق سے کیا یادیں وابستہ ہیں۔
کامران غنی جوکہ مڈل اسکول کے استاد ہیں ان کا یوم اساتذہ کے حوالے سے کہنا ہے کہ وہ بچوں کو سمجھاتے ہیں کہ اساتذہ کے لئے محض ایک ہی دن نہیں ہے بلکہ ہردن ان کا احترام کرنا لازمی ہے۔ بچوں کی طرف سے اساتذہ کا اب اتنا احترام نہیں کیا جاتا جتنا پہلے دور میں ہوتا تھا یہ پوچھے جانے پر کامران اقبال کا یہ شعر پڑھتے ہیں، ’نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں، نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے لطف ایاز میں ‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک تو تعلیم میں بھی آج کمرشلائزیشن آ گیا ہے اور تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے دوسرے بچے بھی اب اتنا خلوص دل میں نہیں رکھتے ۔ کامران کہتے ہیں کہ وہ ایک سرکاری اردو اسکول میں پڑھاتے ہیں تو زیادہ تر بچے پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے جزبہ میں کسی طرح کی کمی نہیں۔ بچوں کو لاکھ منع کیا جائے پھر بھی وہ کچھ نہ کچھ ضرور لے آ تے ہیں کبھی کبھار تو گھر پر بھی تحفے لے آتے ہیں۔
گورمنٹ اسکول کے استاد وقار یحییٰ کا کہنا ہے یوم اساتذہ پر جشن منانے کی روایات عام ہے اور اس دن بچے اپنے اساتذہ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں ، لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ خوشی تو منائی جائے لیکن یہ نہ ہو کہ اس دن اسکول میں درس و تدریس ہی نہ ہو۔ یحیی کا کہنا ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک پینٹنگ کا مقابلہ کروایا گیا جس میں بچوں نے اپنے جوہر دکھائے۔ یحییٰ کو بھی لگتا ہے کہ تعلیم کے علاقے میں پروفیشنل ازم کے آ جانے سے اب اساتذہ اور طلباء کے درمیان رشتوں میں اتنی گرم جوشی نہیں رہی ۔ اردو کی حالت پر یحیی کا کہنا ہے کہ کسی بھی زبان کے زوال کی وجہ کوئی ایک نہیں ہوئی۔ والدین اور طالب علموں کو اردو میں کوئی اسکوپ نظر نہیں آتا اس لئے وہ اس میں دلچسپی لینا بند کر دیتے ہیں۔ اردو کی بدحالی کے لئے ہم سب ذمہ دار ہیں لیکن اب اس کے تئیں کافی بے داری دیکھی جا رہی ہے انشاء اللہ مستقبل میں اردو کو پھر فروغ ملے گا اور یہ اس مقام پر پہنچے گی جس کی یہ حق دار ہے۔
صحافی ڈاکٹر مہر الدین خان کا کہنا ہے کہ وہ 18 سال تک استاد رہے۔ پرائمری سے ڈگری تک اور تقریباً اتنے ہی دن تک صحافی رہے نمائندہ سے لے کر ایڈیٹر تک۔ وہ کہتے ہیں کہ یوم اساتذہ پر ان کے دل میں کوئی گرم جوشی نہیں رہتی وجہ یہ کہ ان کے وقت میں استاد کی کوئی اہمیت نہیں تھی اور تنخواہ بے حد کم تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ آج حالانکہ تعلیم کے شعبے میں بھی ٹھیک ٹھاک تنخواہ مل جاتی ہے لیکن اساتذہ کے احترام میں کوئی اضافہ نہیں ہوا اور یوم اساتذہ محض ایک رسم بن کر رہ گیا ہے۔
کنو پریا کہتی ہیں کہ ان کی بیٹی آج 5 دفعہ ’رحم ‘مطلب ’دَیا ‘ یاد کر کے گئی ہے کیوں کہ کل یہ بات یاد نہ ہونے پر ہندی کی ٹیچر نے ڈانٹ دیا تھا۔ اسے رحم کا مطلب دیا تو شاید یاد رہ جائے اور اس کے ہجے وہ شاید صحیح لکھ لے لیکن ٹیچر کے رویہ سے اسے یہ بات شاید کبھی پتہ نہیں چلے گی کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے۔
دھرو گپت اس دن کو دلچسپ طریقے سے بیویوں سے منسوب کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ وہ کافی غور خوض کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑی استاد ہماری بیویاں ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے جتنا بھی علم حاصل کیا ہے وہ اہلیہ کے سامنے دو کوڑی کا ہو جاتا ہے، تو اگر آپ کو سچے استاد کی تلاش ہے تو شادی کر لیں اور اگر آپ شادی شدہ ہیں تو سرینڈر کر دیں گھر میں موجود استاد کے سامنے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔