مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ لے گا ’ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز‘، مہاراشٹر حکومت نے سونپی ذمہ داری

مہاراشٹر حکومت نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز سے کہا ہے کہ وہ ریاست کے 56 شہروں میں مسلم طبقہ کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی ترقی پر تحقیق کرے۔ اس کے لیے حکومتی احکامات جاری کر دئے گئے ہیں

ممبئی میں اردو اخبار پڑھتے ہوئے مسلمان طالب علم / Getty Images
ممبئی میں اردو اخبار پڑھتے ہوئے مسلمان طالب علم / Getty Images
user

قومی آواز بیورو

ممبئی: مہاراشٹر کے اقلیتی ترقی کے محکمہ نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز (ٹی آئی ایس ایس) کو ریاست کے ان 56 شہروں میں، جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں، مسلم طبقہ کی سماجی، معاشی اور تعلیمی ترقی پر ایک مطالعہ کرنے کا کام سونپا ہے۔ ایک حکم نامہ میں محکمہ نے اس پروجیکٹ کے لیے 33 لاکھ روپے مختص کیے ہیں۔ حکومت کی تجویز کے مطابق ’’اس مطالعہ میں مسلم کمیونٹی کی سماجی، تعلیمی اور اقتصادی حالت کا جائزہ لیا جائے گا۔ ساتھ ہی کمیونٹی پر ریاست کی تعلیم، صحت، روزگار، ہاؤسنگ، کریڈٹ تک رسائی اور بنیادی ڈھانچے کی پالیسیوں کے اثرات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔‘‘ رپورٹ کے مطابق محمود الرحمٰن کمیٹی کے بعد مسلم کمیونٹی پر یہ پہلا ریاست گیر مطالعہ ہوگا۔

مہاراشٹر حکومت کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو اقتصادی اور تعلیمی ترقی کے مرکزی دھارے میں لانے کے لئے ان کی ریاست میں صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔ جائزہ لینے کی ذمہ داری ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز کو سونپی گئی ہے۔ ریاستی حکومت نے کہا کہ ٹاٹا ریسرچ کونسل، ممبئی نے مہاراشٹر میں 6 مقامی محصولات کمشنروں سمیت 56 کارکنوں کو شمار کیا ہے۔ انٹریوز اور طبقہ کے سروے کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے کو کہا گیا ہے۔


خیال رہے کہ 2008 میں اس وقت کی کانگریس-این سی پی حکومت نے ریٹائرڈ آئی اے ایس افسر محمود الرحمان کی سربراہی میں مہاراشٹر میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی حالت کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی نے، جس کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں پانچ سال لگے، مہاراشٹر میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی حالت کو مایوس کن قرار دیا تھا۔ 2013 میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مہاراشٹر میں تقریباً 60 فیصد مسلمان خط غربت سے نیچے ہیں۔ سرکاری ملازمتوں میں ان کا حصہ صرف 4.4 فیصد تھا اور کمیونٹی میں گریجویٹس کی کل تعداد صرف 2.2 فیصد تھی۔

کمیٹی نے تعلیم اور ہاؤسنگ- سرکاری اور نجی دونوں میں مسلمانوں کے لئے ریاست میں 8 فیصد ریزرویشن کی سفارش کی تھی اور کہا تھا کہ ریزرویشن کی سفارش کمیونٹی کے ایک بڑے طبقے کی تکالیف کو دور کرنے کے لیے ضروری ہے۔ رحمان کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر، 2014 میں اس وقت کی کانگریس-این سی پی حکومت نے سرکاری اسکولوں، کالجوں اور ملازمتوں میں مسلمانوں کے لیے 5 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا تھا۔ اس فیصلے کو بمبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی حکومت کے رخ میں تبدیلی نظر آئی۔


بمبئی ہائی کورٹ نے 14 نومبر کو اپنے فیصلے میں ملازمتوں میں 5 فیصد ریزرویشن کی شق کو ہٹا دیا لیکن کہا کہ مسلمانوں کو تعلیم میں 5 فیصد ریزرویشن ملنا چاہیے۔ 2014 میں اقتدار میں آنے والی بی جے پی حکومت نے یہ کہتے ہوئے ریزرویشن کو نافذ کرنے کے لیے قانونی قدم نہیں اٹھایا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن کی حمایت نہیں کرتی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔