سپریم کورٹ کورونا سے موت کے جھوٹے دعوے پر فکرمند

جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگ رتنا کی بنچ نے کہا کہ ’’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح کے فرضی دعوے ہو سکتے ہیں، ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس سہولت کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ نے پیر کے روز کووڈ سے ہوئی موت سے متعلق معاوضے کے فرضی دعووں پر اپنی فکر کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ اس معاملے میں ہندوستان کے سی اے جی (کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل) کو جانچ کی ہدایت دے سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے مشورہ دیا کہ مبینہ فرضی اموات کے دعووں کی جانچ سی اے جی کو سونپی جا سکتی ہے، کیونکہ یہ انتہائی فکر انگیز معاملہ ہے۔ جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس بی وی ناگ رتنا کی بنچ نے کہا کہ ’’ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس طرح کے فرضی دعوے ہو سکتے ہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس سہولت کا غلط استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

بنچ نے کہا کہ اگر اس میں کچھ افسر شامل ہیں تو بھی بہت سنگین معاملہ ہے۔ وکیل گورو کمار بنسل نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 52 کی طرف اشارہ کیا جو اس طرح کی فکر کو دور کرتا ہے۔ جسٹس شاہ نے کہا کہ ’’ہمیں شکایت درج کرنے کے لیے کسی کی ضرورت ہے۔‘‘


ایک وکیل نے ریاستی قانونی سروس اتھارٹی کے ذریعہ معاوضے کے دعووں کی بے ترتیب جانچ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ بچوں کو معاوضے کے پہلو پر عدالت عظمیٰ نے واضح کیا کہ اس کے ذریعہ ہدایت کردہ 50 ہزار روپے کی گرانٹ ادائیگی، کووڈ-19 کے سبب ہر موت کے لیے کیا جانا ہے، نہ کہ متاثرہ کنبہ کے ہر بچے کو۔ 7 مارچ کو سپریم کورٹ نے ڈاکٹروں کے ذریعہ کووڈ کی اموات کے لیے امداد کا دعویٰ کرنے کے لیے لوگوں کو نقلی میڈیکل سرٹیفکیٹ جاری کرنے پر فکر کا اظہار کیا، اور کہا کہ وہ اس معاملے کی جانچ کا حکم دے سکتا ہے۔

مرکز نے بتایا تھا کہ کووڈ کی موت سے متعلق دعووں کو پیش کرنے کے لئے ایک حد طے کی جا سکتی ہے، ورنہ یہ عمل بڑھتا ہی جائے گا۔ مرکز نے مزید کہا کہ کچھ ریاستی حکومتوں کو ڈاکٹروں کے ذریعہ جاری کردہ نقلی میڈیکل سرٹیفکیٹ ملے ہیں۔ مہتا نے یہ بھی بتایا کہ کچھ معاملوں میں ڈاکٹرس کے سرٹیفکیٹ کے ذریعہ امدادی رقم پر عدالت عظمیٰ کے حکم کا غلط استعمال کیا گیا ہے۔


فرضی میڈیکل سرٹیفکیٹ پر فکر ظاہر کرتے ہوئے بنچ نے کہا کہ ’’فکر کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹروں کے ذریعہ دیا گیا فرضی سرٹیفکیٹ بہت سنگین بات ہے۔‘‘ عدالت عظمیٰ نے مہتا کی اس دلیل سے بھی اتفاق ظاہر کیا کہ کووڈ کی موت کے دعووں کو درج کرنے کی ایک مدت ہونی چاہیے۔ بنچ نے کہا ’’کچھ طے مدت ہونی چاہیے، ورنہ یہ عمل ہمیشہ چلتا رہے گا۔‘‘

واضح رہے کہ سپریم کورٹ وکیل گورو بنسل کے ذریعہ کووڈ متاثرین کے کنبوں کو ریاستی حکومتوں کے ذریعہ امدادی رقم تقسیم کرنے سے متعلق داخل ایک عرضی پر سماعت کر رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ مختلف ریاستی حکومت کے ذریعہ کووڈ-19 اموات کے لیے 50 ہزار روپے کی امدادی رقم کی تقسیم کی نگرانی کر رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔