عوامی نمائندوں کے اظہار رائے پر کسی اضافی پابندی کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ
بنچ نے مشاہدہ کیا کہ حقائق کے پس منظر کی جانچ کیے بغیر مرکزی رہنما خطوط وضع کرنا مشکل ہے اور ہر ایک معاملہ کی بنیاد پر ہی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ریاستی یا مرکزی حکومت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز وزراء، ارکان پارلیمنٹ یا ارکان اسمبلی اور افراد کی آزادی اظہار پر کسی اضافی پابندی کی ضرورت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے 5 ججوں کی آئینی بنچ نے اس معاملہ پر فیصلہ سنایا کہ آیا ریاستی یا مرکزی حکومت کے وزراء، ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کی آزادی اظہار پر کوئی پابندی عائد کی سکتی ہے؟
اس عرضی پر 15 نومبر 2022 کو سپریم کورٹ نے سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ بنچ نے 28 ستمبر کو کہا تھا کہ عوامی لیڈروں بشمول سرکاری وزراء، ارکان پارلیمنٹ، ارکان اسمبلی یا سیاسی پارٹیوں کے صدور کو عوام میں غیر دانشمندانہ، ہتک آمیز اور تکلیف دہ بیانات دینے سے روکنے کے لیے عام رہنما خطوط تیار کرنا 'مشکل' ثابت ہو سکتا ہے۔
بنچ نے مشاہدہ کیا کہ حقائق کے پس منظر کی جانچ کیے بغیر مرکزی رہنما خطوط وضع کرنا مشکل ہے اور ہر ایک معاملہ کی بنیاد پر ہی فیصلہ لیا جا سکتا ہے۔ جسٹس ایس عبدالنذیر، جسٹس بھوشن آر گوائی، جسٹس اے ایس بوپنا، جسٹس وی راما سبرامنیم اور جسٹس بی وی ناگرتنا کی آئینی بنچ نے سماعت کے دوران کہا کہ اظہار رائے کے بنیادی حق کو کب اور کس حد تک روکنا ہے، اس سلسلے میں کوئی عام حکم نہیں دیا جا سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔