دہلی میں اختیارات پر جج حضرات کی الگ الگ رائے، معاملہ 3 رکنی بنچ کے سپرد

دہلی میں پبلک سروس کمیشن نہ ہونے اور کیڈر نہ ہونے پر دونوں ججوں میں اختلاف ہوگیا جس کے بعد دونوں نے الگ الگ فیصلے سنائے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

دہلی میں اختیارات کے تقسیم کو لے کر سپریم کورٹ کے دو ججوں میں اختلاف رائے ہونے کی وجہ سے معاملہ کو تین رکنی بنچ کو بھیج دیا گیا ہے جس کا مطلب صاف ہے کے اس تعلق سے تصویر ابھی بھی واضح نہیں ہوئی ہے۔ آج کے فیصلے میں جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن کی بنچ نے الگ الگ رائے کا اظہار کیا۔

واضح رہے دہلی حکومت اور مرکز کے درمیان اختلافات کی اصل وجہ افسران کے تبادلے اور پوسٹنگ ہیں ۔ کیجریوال حکوت کو امید تھی کہ سپریم کورٹ اس معاملہ میں ان کو راحت دے گا ، لیکن اس مدے کو لے کر دونوں ججوں کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا، جس کی وجہ سے معاملہ کو تین رکنی بنچ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ افسران کے تبادلہ اور پوسٹنگ یعنی سروسز کو اگر چھوڑ دیا جائے تو آج کا فیصلہ اے سی بی، سرکل ریٹ اور اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر تک محدود رہا۔

آج سب سے پہلے جسٹس اے کے سیکری نے فیصلہ پڑھنا شروع کیا ۔ اس کے بعد خبر آئی کہ دہلی میں پبلک سروس کمیشن نہ ہونے اور کیڈر نہ ہونے پر دونوں ججوں میں اختلاف ہو گیا جس کے بعد دونوں نے الگ الگ فیصلے سنائے۔ جسٹس سیکری نے اپنے فیصلہ میں کہا ’’ ایک انصاف پسند انتظام ہونا ضروری ہے، سکریٹری سطح کے افسران پر فیصلہ ایل جی کریں ۔ دانکس افسران کے تعلق سے دہلی حکومت اور ایل جی اتفاق رائے سے طے کریں اور پھر بھی اختلافات برقرار رہیں تو صدر جمہوریہ کے پاس جائیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ افسران پر تادیبی کارروائی کرنے کا حق صدر جمہوریہ کے پاس ہو گا۔ اس فیصلے کا جہاں تک تعلق ہے اس سے وزیر اعلی کیجریوال کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا کیونکہ صدر جمہوریہ کوئی بھی فیصلہ بغیر مرکزی حکومت کے مشورے سے نہیں کرتے اس لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ فیصلہ مرکز کے حق میں ہی ہے۔

دوسری جانب اینٹی کرپشن بیورو (اے سی بی) کے معاملہ میں جسٹس سیکری کے فیصلے سے کیجریوال کو زبردست جھٹکا لگا ہے کیونکہ ان کے فیصلے کے مطابق مرکز کے ملازمین پر اے سی بی کارروائی نہیں کر سکتی اور سپریم کورٹ نے مرکز کے نوٹیفکیشن کو صحیح ٹھہرایا ۔ جسٹس سیکری کے فیصلے سے کچھ مدوں پر کیجریوال کو راحت بھی ملی ہے ۔ انہوں نے کہا ’’ بجلی بورڈ کے معاملہ میں تمام حقوق دہلی حکومت کے پاس ہیں ، دہلی حکومت ڈائریکٹر کی تقرری کر سکتی ہے لیکن اس میں ایل جی کی رضامندی ضروری ہے اور یہ رضامندی روٹین نہیں ہو سکتی اور تنازعہ کی صورت میں صدر جمہوریہ کے پاس جانا ہوگا۔

جسٹس سیکری کے بعد جب جسٹس بھوشن نے اپنا فیصلہ سنایا تو انہوں نے کہا ’’سروسز معاملہ پر میں اتفاق نہیں رکھتا اور میری رائے ہے کہ یہ معاملہ آئینی بنچ کے پاس جانا چاہیے کیونکہ آئینی بنچ نے ہی دہلی کو یونین ٹریٹری کہا تھا ‘‘۔ انہوں نے کہا کہ سروسز پر دہلی حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں ہیں اور دہلی اسمبلی بھی اس پر کوئی قانون نہیں بنا سکتی اس لئے وہ دہلی ہائی کورٹ کے فیصلہ سے اتفاق رکھتے ہیں۔

واضح رہے گزشتہ سال 4 جولائی کو سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے اختیارات کو لے کر دہلی حکومت بنام ایل جی معاملہ میں صرف آئینی ضابطوں کی تشریح کی تھی۔ 5 رکنی آئینی بنچ نے کہا تھا کہ قانون بنانا دہلی حکومت کا اختیار ہے اور یہ بات تسلیم کی تھی کہ اصلی طاقت کابینہ کے پاس ہے اور منتخب حکومت سے ہی دہلی چلے گی ۔ عدالت نے اس وقت کہا تھا کہ قانون انتظام، پولس اور زمین کو چھوڑ کر باقی تمام معاملوں میں ایل جی آزادی سے کام نہیں کر سکتے اور ان کو کابینہ کے مشورہ پر کام کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔