سپریم کورٹ نے شہریت قانون کی دفعہ ’6A‘ کو برقرار رکھا، 1966 سے پہلے آسام آنے والے مہاجرین کے حقوق محفوظ

سپریم کورٹ نے شہریت قانون 1955 کی دفعہ ’6A‘ کو آئینی قرار دیا، جس کے تحت یکم جنوری 1966 سے پہلے آسام آنے والے مہاجرین کو شہریت دی گئی تھی۔ فیصلے سے مہاجرین کے حقوق محفوظ رہیں گے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا نے جمعرات کے روز ایک تاریخی فیصلے میں شہریت قانون 1955 کی دفعہ ’6A‘ کو آئینی قرار دیا ہے۔ یہ دفعہ آسام میں یکم جنوری 1966 سے پہلے آنے والے مہاجرین کو ہندوستانی شہریت دینے کی اجازت دیتی ہے۔ پانچ رکنی بینچ، جس کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کر رہے تھے، نے اکثریت کے ساتھ یہ فیصلہ دیا۔ بینچ کے چار ججز، بشمول چیف جسٹس، نے اس فیصلے کی حمایت کی، جبکہ جسٹس جے بی پاردیوالا نے علیحدہ رائے پیش کی۔

یہ دفعہ 1985 میں آسام معاہدے کے بعد قانون کا حصہ بنی تھی، جو کہ اس وقت کی راجیو گاندھی حکومت اور آل آسام اسٹوڈنٹس یونین (اے اے ایس یو) کے درمیان طے پایا تھا۔ یہ معاہدہ 6 سالہ تحریک کے بعد ہوا تھا، جس میں آسام میں بنگلہ دیش سے آنے والے مہاجرین کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا تھا۔


سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ خصوصاً مہاجرین کو شہریت دینے اور آسام کے ’مقامی‘ باشندوں کے حقوق کے حوالے سے کئی اہم سوالات کا جواب دے گا۔ درخواست گزاروں میں آسام پبلک ورکس، آسام سنمیلیتا مہا سنگھا اور دیگر شامل ہیں، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آسام کے لیے الگ شہریت کی کٹ آف تاریخ طے کرنا غیر منصفانہ، غیر قانونی اور امتیازی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام کی آبادیاتی ساخت میں تبدیلی مقامی لوگوں کے ثقافتی حقوق، اقتصادی حالات اور سیاسی کنٹرول کو متاثر کرے گی، جو آئین کے آرٹیکل 29 کے تحت محفوظ ہیں۔

سال 2012 میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا تھا کہ دفعہ 6A کی آسام میں خصوصی طور پر اطلاق سے ریاست کی آبادیاتی ساخت میں واضح تبدیلی آئی ہے اور اس سے آسام کے لوگ اپنی ہی ریاست میں اقلیت بن چکے ہیں۔ اس کا ریاست کی معاشی اور سیاسی صورتحال پر منفی اثر پڑا ہے اور یہ آسام کے لوگوں کی ثقافتی بقا اور ملازمت کے مواقع کو نقصان پہنچا رہی ہے۔


دوسری جانب، مرکزی حکومت نے آئین کے آرٹیکل 11 کا حوالہ دیا ہے، جو پارلیمنٹ کو شہریت سے متعلق قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے۔ جبکہ دوسرے فریقین، بشمول این جی او 'سٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس' نے دلیل دی کہ اگر دفعہ 6A کو کالعدم قرار دیا گیا تو آسام میں کئی دہائیوں سے شہریت کے حقوق رکھنے والے لوگ ’بے وطن‘ ہو جائیں گے اور انہیں غیر ملکی تصور کیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔