سپریم کورٹ آج یوپی مدرسہ ایکٹ پر فیصلہ سنائے گا، لاکھوں طلباء کا مستقبل داؤ پر

سپریم کورٹ آج یوپی مدرسہ ایکٹ 2004 کی منسوخی سے متعلق آئینی فیصلے پر اپنا فیصلہ سنائے گا۔ عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے سے لاکھوں طلباء کا تعلیمی مستقبل متاثر ہو سکتا ہے

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

نئی دہلی: سپریم کورٹ آج یوپی مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ 2004 کی آئینی حیثیت کے متعلق ایک اہم فیصلے کا اعلان کرے گی۔ اس قانون کے خلاف الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ قانون غیر آئینی ہے اور سیکولرازم کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس پر یوپی حکومت نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور اپیل دائر کی کہ یہ قانون آئینی ہے اور اسے منسوخ کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں تین ججوں کی بینچ نے 22 اکتوبر کو اس کیس میں دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ یوپی حکومت کی طرف سے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل (اے ایس جی) نٹراجن نے عدالت کو بتایا کہ ریاست کا مؤقف ہے کہ مدرسہ ایکٹ آئینی ہے اور اس کے ذریعہ مدارس کو تعلیمی معیار کے تحت لانا ضروری ہے۔ حکومت نے اس ایکٹ کے جواز کا بھرپور دفاع کیا ہے اور کہا کہ اسے مکمل طور پر منسوخ کرنا مناسب نہیں بلکہ ان دفعات کا جائزہ لینا چاہیے جو مبینہ طور پر بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔


چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے اس معاملے کی سماعت کے دوران مدرسہ تعلیم کی اہمیت اور سیکولرازم کے اصولوں پر غور کرتے ہوئے کہا کہ ’سیکولرازم کا مطلب جیو اور جینے دو ہے۔‘ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ریاست کو مذہبی تعلیم والے اداروں میں تعلیمی معیار یقینی بنانے کا حق نہیں ہے؟ مزید انہوں نے کہا کہ اس ایکٹ کے ذریعے ریاست کو مدارس میں تعلیمی معیار کے ضوابط نافذ کرنے کا حق حاصل ہے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’آپ 700 سال کی تاریخ کو محض ایکٹ ختم کر کے تبدیل نہیں کر سکتے۔‘

یہ معاملہ یوپی میں مدارس کی مستقبل کی نوعیت اور طلباء کے تعلیمی معیار پر براہ راست اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ مدرسہ ایکٹ کو برقرار رکھتی ہے تو ریاست میں مذہبی تعلیم کے اداروں میں حکومت کا کردار مزید مضبوط ہو جائے گا۔ تاہم، اگر یہ ایکٹ منسوخ کر دیا جاتا ہے تو اس سے مدارس میں زیر تعلیم لاکھوں طلباء کا مستقبل غیر یقینی ہو سکتا ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ مدارس اور یوپی حکومت کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ فیصلہ مذہبی تعلیم کو ریاستی مداخلت سے محفوظ رکھنے یا اس میں معیاری ضوابط نافذ کرنے کے حوالے سے اصولی تبدیلی لائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔