اب حلالہ پر مرکزی حکومت کو سپریم کورٹ کانوٹس
سپریم کورٹ نے کثیر شادی اور حلالہ کے خلاف داخل 4 عرضیوں پر مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ لاء کمیشن کو بھی نوٹس جاری کیا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے آج مسلمانوں میں ایک سے زیادہ شادی اور نکاح حلالہ کے خلاف داخل عرضی پر سماعت کرتے ہوئے اس کیس کو کانسٹی ٹیوشن بنچ کے پاس منتقل کر دیا ہے۔ ساتھ ہی اس سلسلے میں مرکزی حکومت اور لاء کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب مانگا گیا ہے۔ کثیر شادی اور نکاح حلالہ کے خلاف عدالت میں چار عرضیاں داخل کی گئی ہیں جن میں اس کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
عدالت میں ایک سے زیادہ شادی اور نکاح حلالہ کے خلاف عرضی داخل کرنے والوں میں ایک بی جے پی لیڈر اور تین مسلم شخصیات شامل ہیں۔ بی جے پی لیڈر وکیل بھی ہیں اور ان کا نام اشونی اپادھیائے ہے۔ دیگر عرضی دہندگان میں دہلی کی نفیسہ خان، دہلی کی ہی ثمینہ بیگم اور معلم محسن بن حسین بن عبداد الخطری شامل ہیں۔
نفیسہ خان نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ نکاح حلالہ دفعہ 375 کے تحت عصمت دری ہے اور ایک سے زیادہ شادی تعزیرات ہند کی دفعہ 44 کے تحت جرم ہے۔ لہٰذا عدالت انھیں خارج کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے مطابق جب دو قوانین میں ٹکراؤ ہوتا ہے تو پرسنل ایکٹ پر عوامی قانون ہی نافذ ہوتا ہے۔ ثمینہ بیگم کا معاملہ کچھ الگ ہے۔ وہ دو بار شادی اور دو بار طلاق بھی لے چکی ہیں۔ وہ ایک سے زیادہ شادی کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1999 میں جاوید انور سے ان کی شادی ہوئی تھی جس سے دو بیٹے ہوئے اور بعد میں اس نے طلاق دے دیا۔ اس کی دوسری شادی 2013 میں ریاض الدین سے ہوئی جو پہلے سے شادی شدہ تھا اور جب وہ حمل سے تھی تو اس نے بھی طلاق دے دیا۔
ثمینہ نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی طبقوں کو اپنے اپنے مذاہب کے قوانین کے مطابق چلنے کی اجازت ہے۔ بے شک ہر مذاہب میں الگ الگ قوانین ہو سکتے ہیں، لیکن پرسنل لاء کو آئینی اخلاقیات پر کھرا اترنا چاہیے۔ یہ آئین کی دفعہ 14، 15 اور 21 کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے۔
جہاں تک نکاح حلالہ کا معاملہ ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے چکا ہے اور دوبارہ اپنی زوجیت میں لانا چاہتا ہو۔ ایسی صورت میں سابقہ بیوی کو کسی دیگر مرد سے شادی کرنی ہوتی ہے اور اگر وہ طلاق دیتا ہے تو پھر اپنے پہلے شوہر سے وہ شادی کر سکتی ہے۔ عرضی دہندگان کا اعتراض اسی پر ہے اور وہ حلالہ کو عصمت دری قرار دے رہی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔