ہادیہ معاملہ: نفرت پر محبت کی فتح
آج عدالت عظمیٰ نے انتہائی اہم فیصلہ سناتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو رَد کر دیا اور ہادیہ کو شوہر شفین کے ساتھ رہنے کی آزادی دے دی۔
کیرالہ لو جہاد معاملے میں سپریم کورٹ نے آج انتہائی اہم فیصلہ سناتے ہوئے ہادیہ اور شفین جہاں کی شادی کو بحال کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ہادیہ کو آزادی مل گئی ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہ سکے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ہادیہ اور شفین جہاں شوہر-بیوی کی طرح رہ سکیں گے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے کیرالہ ہائی کورٹ کا فیصلہ رَد ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے این آئی اے سے کہا ہے کہ اگر اس کے پاس انسانی اسمگلنگ سے متعلق کوئی ثبوت ہے تو وہ اس معاملے میں جانچ جاری رکھ سکتی ہے۔
اس سے قبل ہائی کورٹ نے دونوں کی شادی کو غلط ٹھہرایا تھا۔ شفین جہاں نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ این آئی اے اس معاملے میں سامنے آئے پہلوؤں پر جانچ جاری رکھ سکتی ہے۔ این آئی اے نے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ ہادیہ معاملے میں جانچ تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ صرف دو لوگوں سے پوچھ تاچھ نہیں ہوپائی ہے کیونکہ ابھی وہ ملک سے باہر ہیں۔
این آئی اے کو جانچ کی آزادی دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا کہ این آئی اے کی جانچ میں ہم دخل اندازی نہیں کر رہے ہیں۔ این آئی اے کسی بھی موضوع پر جانچ کر سکتی ہے لیکن کسی دو شخص کی شادی سے متعلق کس طرح جانچ کی جا سکتی ہے؟عدالت عظمیٰ نے مثال پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر دو بالغ شادی کرتے ہیں اور حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ شادی شدہ جوڑا غلط ارادے سے بیرون ملک جا رہا ہے تو حکومت اسے روکنے کی اہل ہے۔
آج سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ ’ہیویس کارپس‘ کی بنیاد پر شادی کو کس طرح رَد کیا جاسکتا ہے؟ حالانکہ این آئی اے نے سپریم کورٹ میں اپنی جانچ رپورٹ پیش کر دی ہے۔ رپورٹ میں این آئی اے نے کہا ہے کہ شفین کے خلاف 153 اے، 295 اے اور 107 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔ دوسری طرف ہادیہ کے شوہر شفین کی جانب سے وکیل کپل سبل نے عدالت میں کہا کہ عدالت پہلے معاملوں پر سماعت کرے۔ کیا ہائی کورٹ کے پاس یہ حق ہے کہ ’ہیویس کارپس‘ کی بنیاد پر کسی شادی کو رَد کر سکتا ہے؟ جب دو بالغ آپسی رضامندی سے شادی کرتے ہیں تو کیا کوئی تیسرا فریق اسے عدالت میں چیلنج کر سکتا ہے؟
کیرالہ لو جہاد معاملے میں شفین کی طرف سے کپل سبل نے کہا کہ کسی کو بھی اپنی پسند سے شادی کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ ملک کے آئین میں جو بنیادی حقوق ہمیں حاصل ہیں ان میں عزت کے ساتھ جینے کا حق بھی حاصل ہے۔ ہائی کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ ’ہیویس کارپس‘ کی عرضی پر کسی شادی کو رَد کر دے۔ اگر دو بالغ اپنی مرضی سے شادی کرتے ہیں تو کوئی تیسرا فریق اس میں دخل نہیں دے سکتا۔ انھوں نے مزید کہا کہ شادی کے معاملے میں جب تک جوڑے میں سے کسی نے شکایت درج نہ کرائی ہو تو جانچ نہیں کی جا سکتی۔ اس معاملے میں ہادیہ اور شفین میں سے نہ کسی نے شکایت درج کرائی اور نہ ہی ایف آئی آر۔ ہادیہ نے جو حلف نامہ داخل کیا ہے اس سے بھی یہ صاف ہوتا ہے کہ اس کا اب اپنے والد پر بھروسہ نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Mar 2018, 3:11 PM