بلومبرگ معاملہ: خبروں کی اشاعت کے خلاف حکم امتناعی کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے کیا منسوخ

سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ حکم امتناعی اس وقت تک نہیں دیا جانا چاہیے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ جس مواد کو شائع کیا گیا ہے وہ ’بد نیتی پر مبنی‘ یا ’صریح جھوٹ‘ ہے۔

<div class="paragraphs"><p>سپریم کورٹ / تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

سپریم کورٹ / تصویر: آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

آزادیٔ اظہار انسان کے بنیادی حقوق میں سے ہے لیکن یہ حق ہمیشہ کسی نہ کسی طور پر سبوتاژ ہوتا رہا ہے۔ پھر چاہے آزادیٔ اظہار کا یہ معاملہ شخصی آزادی کا ہو یا پھر میڈیا کے ذریعے خبروں کی اشاعت کا۔ آزادیٔ اظہار کے حقوق کے ایسے ہی ایک معاملے میں سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ خبروں کی اشاعت کے خلاف حکم امتناعی لگانے سے آزادیٔ اظہار پر شدید اثر پڑتا ہے۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے نچلی عدالت کے اس ضمن کے فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے۔

چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی صدارت والی سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے آزادیٔ اظہار کے معاملے میں یہ اہم بات کہی ہے۔ بین الاقوامی میڈیا گروپ ’بلومبرگ‘ سے متعلق توہین عدالت کی درخواست کے معاملے میں تین ججوں کی اس بنچ نے کہا کہ عدالتوں کو غیر معمولی واقعات کے علاوہ کسی بھی خبر کی اشاعت کے خلاف یکطرفہ طور پر حکم امتناعی نہیں دینا چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ اس سے لکھنے والے کے آزادیٔ اظہار اور عوام کے جاننے کے حق پر سنگین اثر پڑ سکتا ہے۔ اس تبصرے کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے ملک کے مشہور میڈیا گروپ کے خلاف مبینہ طور پر توہین آمیز خبروں کی اشاعت کو روکنے کے ٹرائل کورٹ کے حکم کو بھی منسوخ کر دیا۔


بین الاقوامی میڈیا گروپ بلومبرگ پر زی انٹرٹینمنٹ کے خلاف توہین آمیز مضامین لکھنے کا الزام ہے۔ نچلی عدالت نے بلومبرگ کو مضامین ہٹانے کا حکم دیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ مواد کی اشاعت کے خلاف حکم امتناعی کیس کی سماعت مکمل ہونے کے بعد ہی اس طرح کا حکم دیا جانا چاہیے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی تین ججوں کی بنچ نے کہا کہ مضمون کی اشاعت کے خلاف ’پری ٹرائل حکم امتناعی‘ جیسے حکم رائٹرس کے آزادیٔ اظہار اور عوام کے جاننے کے حق پر سنگین اثر ڈال سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں ان تین ججوں کی بنچ میں جسٹس جے بی پاردیوالا اور جسٹس منوج مشرا بھی شامل تھے۔ اس بنچ نے کہا کہ حکم امتناعی خاص طور پر یکطرفہ نہیں ہونا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے واضح کیا کہ حکم امتناعی اس وقت تک نہیں دیا جانا چاہیے جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ جس مواد کو شائع کیا گیا ہے وہ ’بد نیتی پر مبنی‘ یا ’صریح جھوٹ‘ ہے۔ بنچ نے کہا کہ دوسرے لفظوں میں مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے قبل لاپرواہی سے دیے گئے عبوری حکم امتناعی ’عوامی بحث کا گلا گھونٹنے‘ کے مترادف ہیں۔ سی جے آئی چندرچوڑ کی بنچ نے واضح کیا کہ عدالتوں کو غیر معمولی معاملات کے علاوہ یکطرفہ حکم امتناعی نہیں دینا چاہئے۔ اگر ایسا کیا گیا تو مقدمہ کی سماعت کے دوران مدعا علیہ کی طرف سے پیش کیے گئے دفاعی دلائل کی کوئی اہمیت نہیں رہ جائے گی۔


سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ الزامات ثابت ہونے سے پہلے شائع ہونے والے مواد کے خلاف عبوری حکم امتناعی، وہ بھی مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے، سزائے موت کے مترادف ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہتک عزت کے مقدمے میں عبوری حکم امتناعی دیتے وقت آزادیٔ اظہار اورعوامی مباحث کو روکنے جیسے پہلوؤں کو بھی ذہن میں رکھا جانا چاہیے، نیزعدالتوں کو طویل قانونی چارہ جوئی کے استعمال کی صلاحیت پر بھی غور کرنا چاہیے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ دہلی ہائی کورٹ کے 14 مارچ کے حکم کے خلاف بلومبرگ کی عرضداشت پر سماعت کر رہی تھی۔ ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے حکم کے خلاف بلومبرگ کی اپیل کو مسترد کر دیا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔