عوامی نمائندگان کے مجرمانہ ریکارڈ نہ دینے پر مودی حکومت کو سپریم کورٹ کی پھٹکار

سپریم کورٹ نے سخت لہجہ میں پوچھا کہ مجرمانہ معاملات کے تصفیہ کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ کے قیام کا جو حکم دیا تھا اس پر عمل کیوں نہیں ہوا۔

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
user

قومی آواز بیورو

ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف زیر التوا مجرمانہ معاملات کی تفصیلات نہ دینے اور مجرمانہ معاملہ کے تصفیہ میں تیزی لانے کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ تشکیل دینے میں تاخیر کرنے پر مرکزی حکومت کو سخت پھٹکار لگائی ہے۔

جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت والی بنچ نے مرکزی حکومت کے حلف نامہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی تیاری نامکمل ہے لہذا واضح معلومات کے ساتھ از سرنو حلف نامہ داخل کیا جائے۔ عدالت عظمٰی نے اگلی سماعت کے لئے 5 ستمبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

دراصل سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے جب یہ پوچھا کہ کتنے ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف مجرمانہ معاملات زیر التوا ہیں اور ان کی صورت حال کیا ہے اور فاسٹ ٹریک کورٹ کی تشکیل کا کیا ہوا، تو مرکزی حکومت نے محض فاسٹ ٹریک کورٹ کی تشکیل کے حوالہ سے ہی معلومات دی۔

سپریم کورٹ نے سخت لہجہ میں پوچھا کہ مجرمانہ معاملات کے تصفیہ کے لئے فاسٹ ٹریک کورٹ کے قیام کا نومبر میں جو حکم دیا گیا تھا اس پر ابھی تک عمل کیوں نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ نے کہا، ’’یکم نومبر 2017 سے اب تک وہ معلومات نہیں پیش ہوئیں جو ہم نے طلب کی تھیں۔ ہم نے 21 نومبر 2017 کو بھی تفصیلات طلب کی تھیں کہ ملک کے مختلف صوبوں میں ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف کتنے معاملات زیر التوا ہیں؟ لیکن جو ہمیں دیا گیا وہ محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے۔‘‘

دریں اثنا مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 11 ریاستوں میں 12 فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کی جا چکی ہیں۔ مرکز نے بتایا کہ دہلی میں 2 جبکہ تلنگانہ، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، یوپی، مہاراشٹر، مغربی بنگال اور مدھیہ پردیش میں فاسٹ ٹریک کورٹ قائم کئے جا چکے ہیں۔ ان میں صرف اور صرف ارکان پرلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے خلاف زیر التوا مجرمانہ معاملات کی سماعت ہوگی۔

کرناٹک، الہ آباد، مدھیہ پردیش، پٹنہ اور دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ انہیں مزید فاسٹ ٹریک کورٹ کی ضرورت نہیں ہے، جبکہ بامبے ہائی کورٹ نے کہا کہ انہیں ایک اور کورٹ چاہئے۔ فاسٹ ٹریک کورٹ کے لئے ریاستوں کو 7.80 کروڑ روپے کا فنڈ دیا گیا ہے۔ اگلی سماعت میں حکومت کو مکمل تفصیلات پیش کرنی ہوں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔