جسٹس جوسف کی سینئرٹی گھٹانے سے ناراض ججوں نے کی سی جے آئی سے ملاقات

سی جے آئی دیپک مشرا نے سپریم کورٹ کے ججوں کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ جسٹس جوسف کی سینئرٹی کے معاملے میں جسٹس گوگوئی سے مشورہ کریں گے اور اپنی بات مرکز کے سامنے بھی رکھیں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

سپریم کورٹ کے کئی جج مرکزی حکومت کے ذریعہ جسٹس کے ایم جوسف کی سینئرٹی گھٹانے سے ناراض ہیں۔ اس سلسلے میں ناراض ججوں نے 6 اگست کو چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) دیپک مشرا سے ملاقات کی اور ان کے سامنے حکومت کے فیصلے پر اپنا اختلاف درج کرایا۔ ججوں نے یہ ناراضگی اس وقت درج کرائی ہے جب کہ منگل یعنی 7 اگست کو جسٹس جوسف دو دیگر ججوں کے ساتھ بطور سپریم کورٹ جج حلف لینے والے ہیں۔ دیپک مشرا سے ان ججوں کی یہ ملاقات آج دن کی کارروائی شروع ہونے سے قبل چائے کے دوران ہوئی۔

ذرائع کے مطابق جن ججوں نے چیف جسٹس سے ملاقات کی ان میں جسٹس ایم بی لوکُر اور جسٹس کورین جوسف بھی شامل تھے جو کہ کالجیم کے رکن بھی ہیں۔ چیف جسٹس کے بعد سب سے سینئر جج جسٹس رنجن گوگوئی اس ملاقات کے دوران موجود نہیں تھے کیونکہ وہ پیر کے روز چھٹی پر تھے۔ ججوں کے ذریعہ ناراضگی ظاہر کیے جانے کے بعد چیف جسٹس نے ججوں کو اطمینان دلایا کہ وہ جسٹس گوگوئی کے ساتھ اس سلسلے میں گفتگو کریں گے اور مرکزی حکومت کے سامنے بھی اس معاملے کو اٹھائیں گے۔

قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تین ججوں کے پرموشن سے متعلق مرکزی حکومت نے گزشتہ جمعہ کو نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں جسٹس کے ایم جوسف کو سینئرٹی میں تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن میں مدراس ہائی کورٹ کی چیف جسٹس اندرا بنرجی کا نام پہلے نمبر پر ہے جب کہ دوسرے نمبر پر اڈیشہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ونیت شرن کا نام ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ جسٹس جوسف کے عدالت عظمیٰ میں پروموشن کو لے کر گزشتہ کچھ مہینے سے کالجیم اور مرکز کے درمیان تصادم کی حالت بنی ہوئی تھی اور جب بالآخر مودی حکومت نے اس پروموشن کو منظوری دی توسینئرٹی میں جسٹس جوسف کو تیسرے نمبر پر کر دیا۔

جسٹس جوسف کے پروموشن میں رخنہ پیدا کرنے اور اب سینئرٹی گھٹانے کو کچھ لوگ سیاست قرار دے رہے ہیں۔ دراصل اتراکھنڈ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس جوسف نے اس بنچ کی قیادت کی تھی جس نے 2016 میں ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کے فیصلے کو نامنظور کر دیا تھا۔ اتراکھنڈ میں اس وقت کانگریس کی حکومت تھی۔ مرکزی حکومت کے تازہ فیصلے کو اس سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔